ETV Bharat / bharat

ہمیں فسادات اور انہدام کے بارے میں کیوں پڑھانا چاہیے: این سی ای آر ٹی کے سربراہ - NCERT Chief on Babri Masjid

این سی ای آر ٹی کی 12ویں جماعت کے پولیٹیکل سائنس کی نئی نصابی کتاب میں بابری مسجد کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کے بجائے اسے تین گنبد والا ڈھانچہ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ ٹیکسٹ بک میں تبدیلیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر این سی ای آر ٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کیا طلباء کو اس انداز میں پڑھایا جائے کہ وہ نفرت کا شکار ہو جائیں۔

(Left) File Photo of Babri Masjid (Right) NCERT director Dinesh Prasad Saklani
(بائیں) بابری مسجد کی فائل فوٹو (دائیں) این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی (Associated Press/NCERT Website)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 16, 2024, 6:19 PM IST

Updated : Jun 16, 2024, 7:11 PM IST

نئی دہلی: نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کلاس 12 کے لیے پولیٹیکل سائنس کی نظرثانی شدہ نصابی کتاب میں بابری مسجد کا نام سے ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسے "تین گنبد والا ڈھانچہ" کہا گیا ہے۔

این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر نے اس تبدیلی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ گجرات فسادات اور بابری مسجد کے انہدام کے متعلق ترمیم اس وجہ سے کی گئی تھی کیونکہ فسادات کے بارے میں تعلیم سماج میں تشدد اور افسردہ شہری پیدا کر سکتی ہے۔

نئے نصابی کتاب میں این سی ای آر ٹی نے تاریخی مسجد کے انہدام کے حصے کو چار صفحات سے کم کر کے دو صفحات تک محدود کر دیا ہے اور پہلے کے بہت سی تفصیلات کو بھی حذف کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت میں این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی نے کہا کہ نصابی کتب میں تبدیلیاں سالانہ طور پر کی جانے والی نظرثانی کا حصہ ہیں اور اسے شور و غوغا کا موضوع نہیں بنانا چاہیے۔

این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں میں گجرات فسادات اور بابری مسجد کے انہدام کے بارے میں پوچھے جانے پر، سکلانی نے کہا، "ہم اسکول کی نصابی کتابوں میں فسادات کے بارے میں کیوں پڑھائیں؟ ہم سماج میں مثبت شہری پیدا کرنا چاہتے ہیں نہ کہ پرتشدد اور افسردہ افراد"۔

انھوں نے آگے کہا کہ کیا ہمیں اپنے طالب علموں کو اس انداز میں پڑھانا چاہیے کہ وہ معاشرے میں نفرت پیدا کریں یا نفرت کا شکار ہو جائیں؟ کیا تعلیم کا مقصد یہ ہے؟ کیا ہمیں ایسے چھوٹے بچوں کو فسادات کے بارے میں پڑھانا چاہیے؟

سکلانی نے مزید کہا کہ جب وہ بچے بڑے ہوں گے تو وہ اس کے بارے میں سب کچھ جان سکتے ہیں لیکن اسکول کی نصابی کتابیں میں یہ کیوں پڑھایا جائے؟ جب وہ بڑے ہوں تو انہیں سمجھنے دیں کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا، نصابی کتاب میں تبدیلیوں کے بارے میں شور و غوغا غیر ضروری ہے۔

این سی ای آرٹی کے ڈائریکٹر سکلانی کا یہ تبصرہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے، جب نئی نصابی کتابیں متعدد حذف اور تبدیلیوں کے ساتھ مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ سکلانی نے مزید کہا کہ "ہم مثبت شہری بنانا چاہتے ہیں اور یہی ہماری نصابی کتابوں کا مقصد ہے۔ ان میں ہم سب کچھ نہیں رکھ سکتے۔ہماری تعلیم کا مقصد افسردہ شہری یا متشدد شہری پیدا کرنا نہیں ہے۔ نفرت اور تشدد تعلیم کے مضامین نہیں ہیں، انہیں ہماری نصابی کتابوں کا مرکز نہیں ہونا چاہیے،" انہوں نے اشارتا کہا کہ نصابی کتابوں میں 1984 کے فسادات کے بارے میں وہی شور و غوغا نہیں ہے۔

قابل ذکر ہے کہ نصابی کتب سے 'بی جے پی کی گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا, کار سیوکوں کا کردار؛ بابری مسجد کے انہدام کے بعد فرقہ وارانہ تشدد؛ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں صدر راج اور بی جے پی کا ایودھیا میں ہونے والے واقعات پر افسوس کا اظہار، کو حذف کیا گیا ہے۔

این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر نے کہا "اگر سپریم کورٹ نے رام جنم بھومی کے حق میں فیصلہ دیا ہے، تو کیا اسے ہماری نصابی کتابوں میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے، اگر ہم نے نئی اپڈیٹس کو شامل کیا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اگر ہم نے نئی پارلیمنٹ بنائی ہے تو کیا ہمارے طلبہ کو اس کا علم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم حالیہ پیش رفت کو شامل کریں۔

نصاب اور نصابی کتابوں کے زعفرانیت کے الزامات کے بارے میں پوچھے جانے پر سکلانی نے کہا، "اگر کوئی چیز غیر متعلقہ ہو گئی ہے تو اسے تبدیل کرنا پڑے گا، اس میں مجھے یہاں کوئی زعفرانیت نظر نہیں آتی۔ ہم تاریخ پڑھاتے ہیں تاکہ طلبہ حقائق کے بارے میں جانیں نہ کہ اسے میدان جنگ بنانے کے لیے ہم تعلیم دیتے ہیں۔ اگر ہم ہندوستانی نالج سسٹم کے بارے میں بتا رہے ہیں تو یہ زعفرانائزیشن کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر ہم مہرولی میں لوہے کے ستون کے بارے میں بتا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہندوستانی کسی بھی میٹالرجیکل سائنسدان سے بہت آگے ہیں، تو کیا ہم غلط کہہ رہے ہیں؟ یہ زعفرانائزیشن کیسے ہو سکتا ہے؟"

61 سالہ سکلانی، جو 2022 میں این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر کے طور پر عہدہ سنبھالا تھا اس سے پہلے وہ ایچ این بی گڑھوال یونیورسٹی میں قدیم تاریخ کے شعبہ کے سربراہ تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نصابی کتب میں تبدیلی میں کیا غلط ہے؟ نصابی کتب کو اپ ڈیٹ کرنا ایک عالمی عمل ہے، یہ تعلیم کے مفاد میں ہے۔ نصابی کتب پر نظر ثانی کرنا ایک سالانہ مشق ہے۔ جو کچھ بھی تبدیل ہوتا ہے اس کا فیصلہ تدریسی ماہرین کرتے ہیں۔ میں اس عمل میں نہ حکم دیتا ہوں اور نہ مداخلت کرتا ہوں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے دسمبر 1992 میں ہندو کارکنوں کے ذریعہ بابری مسجد کو گرائے جانے کے عمل کو مجرمانہ قرار دیتے ہوئے بابری مسجد کی زمین کی ملکیت رام جنم بھومی کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ملک میں بڑے پیمانے پر قبول بھی کیا گیا۔ جس کے بعد رواں سال 22 جنوری کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں رام مندر کا افتتاح بھی کر دیا گیا۔

این سی ای آر ٹی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے مطابق اسکول کی نصابی کتابوں کے نصاب پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ 2014 کے بعد سے این سی ای آر ٹی کی نصابی کتب پر نظر ثانی اور اپ ڈیٹ کرنے کا یہ چوتھا دور ہے۔ اس دوران ہمایوں، شاہ جہاں، اکبر، جہانگیر اور اورنگ زیب جیسے مغل بادشاہوں کے کارناموں پر مشتمل دو صفحات پر مشتمل یونٹ کو بھی نصابی کتابوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے شہادت بابری مسجد اور گجرات فسادات کا باب حذف

بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر پر نہیں کی گئی تھی: معروف مؤرخ عرفان حبیب

نئی دہلی: نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کلاس 12 کے لیے پولیٹیکل سائنس کی نظرثانی شدہ نصابی کتاب میں بابری مسجد کا نام سے ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسے "تین گنبد والا ڈھانچہ" کہا گیا ہے۔

این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر نے اس تبدیلی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ گجرات فسادات اور بابری مسجد کے انہدام کے متعلق ترمیم اس وجہ سے کی گئی تھی کیونکہ فسادات کے بارے میں تعلیم سماج میں تشدد اور افسردہ شہری پیدا کر سکتی ہے۔

نئے نصابی کتاب میں این سی ای آر ٹی نے تاریخی مسجد کے انہدام کے حصے کو چار صفحات سے کم کر کے دو صفحات تک محدود کر دیا ہے اور پہلے کے بہت سی تفصیلات کو بھی حذف کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت میں این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی نے کہا کہ نصابی کتب میں تبدیلیاں سالانہ طور پر کی جانے والی نظرثانی کا حصہ ہیں اور اسے شور و غوغا کا موضوع نہیں بنانا چاہیے۔

این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں میں گجرات فسادات اور بابری مسجد کے انہدام کے بارے میں پوچھے جانے پر، سکلانی نے کہا، "ہم اسکول کی نصابی کتابوں میں فسادات کے بارے میں کیوں پڑھائیں؟ ہم سماج میں مثبت شہری پیدا کرنا چاہتے ہیں نہ کہ پرتشدد اور افسردہ افراد"۔

انھوں نے آگے کہا کہ کیا ہمیں اپنے طالب علموں کو اس انداز میں پڑھانا چاہیے کہ وہ معاشرے میں نفرت پیدا کریں یا نفرت کا شکار ہو جائیں؟ کیا تعلیم کا مقصد یہ ہے؟ کیا ہمیں ایسے چھوٹے بچوں کو فسادات کے بارے میں پڑھانا چاہیے؟

سکلانی نے مزید کہا کہ جب وہ بچے بڑے ہوں گے تو وہ اس کے بارے میں سب کچھ جان سکتے ہیں لیکن اسکول کی نصابی کتابیں میں یہ کیوں پڑھایا جائے؟ جب وہ بڑے ہوں تو انہیں سمجھنے دیں کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا، نصابی کتاب میں تبدیلیوں کے بارے میں شور و غوغا غیر ضروری ہے۔

این سی ای آرٹی کے ڈائریکٹر سکلانی کا یہ تبصرہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے، جب نئی نصابی کتابیں متعدد حذف اور تبدیلیوں کے ساتھ مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ سکلانی نے مزید کہا کہ "ہم مثبت شہری بنانا چاہتے ہیں اور یہی ہماری نصابی کتابوں کا مقصد ہے۔ ان میں ہم سب کچھ نہیں رکھ سکتے۔ہماری تعلیم کا مقصد افسردہ شہری یا متشدد شہری پیدا کرنا نہیں ہے۔ نفرت اور تشدد تعلیم کے مضامین نہیں ہیں، انہیں ہماری نصابی کتابوں کا مرکز نہیں ہونا چاہیے،" انہوں نے اشارتا کہا کہ نصابی کتابوں میں 1984 کے فسادات کے بارے میں وہی شور و غوغا نہیں ہے۔

قابل ذکر ہے کہ نصابی کتب سے 'بی جے پی کی گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا, کار سیوکوں کا کردار؛ بابری مسجد کے انہدام کے بعد فرقہ وارانہ تشدد؛ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں صدر راج اور بی جے پی کا ایودھیا میں ہونے والے واقعات پر افسوس کا اظہار، کو حذف کیا گیا ہے۔

این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر نے کہا "اگر سپریم کورٹ نے رام جنم بھومی کے حق میں فیصلہ دیا ہے، تو کیا اسے ہماری نصابی کتابوں میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے، اگر ہم نے نئی اپڈیٹس کو شامل کیا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اگر ہم نے نئی پارلیمنٹ بنائی ہے تو کیا ہمارے طلبہ کو اس کا علم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم حالیہ پیش رفت کو شامل کریں۔

نصاب اور نصابی کتابوں کے زعفرانیت کے الزامات کے بارے میں پوچھے جانے پر سکلانی نے کہا، "اگر کوئی چیز غیر متعلقہ ہو گئی ہے تو اسے تبدیل کرنا پڑے گا، اس میں مجھے یہاں کوئی زعفرانیت نظر نہیں آتی۔ ہم تاریخ پڑھاتے ہیں تاکہ طلبہ حقائق کے بارے میں جانیں نہ کہ اسے میدان جنگ بنانے کے لیے ہم تعلیم دیتے ہیں۔ اگر ہم ہندوستانی نالج سسٹم کے بارے میں بتا رہے ہیں تو یہ زعفرانائزیشن کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر ہم مہرولی میں لوہے کے ستون کے بارے میں بتا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہندوستانی کسی بھی میٹالرجیکل سائنسدان سے بہت آگے ہیں، تو کیا ہم غلط کہہ رہے ہیں؟ یہ زعفرانائزیشن کیسے ہو سکتا ہے؟"

61 سالہ سکلانی، جو 2022 میں این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر کے طور پر عہدہ سنبھالا تھا اس سے پہلے وہ ایچ این بی گڑھوال یونیورسٹی میں قدیم تاریخ کے شعبہ کے سربراہ تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نصابی کتب میں تبدیلی میں کیا غلط ہے؟ نصابی کتب کو اپ ڈیٹ کرنا ایک عالمی عمل ہے، یہ تعلیم کے مفاد میں ہے۔ نصابی کتب پر نظر ثانی کرنا ایک سالانہ مشق ہے۔ جو کچھ بھی تبدیل ہوتا ہے اس کا فیصلہ تدریسی ماہرین کرتے ہیں۔ میں اس عمل میں نہ حکم دیتا ہوں اور نہ مداخلت کرتا ہوں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے دسمبر 1992 میں ہندو کارکنوں کے ذریعہ بابری مسجد کو گرائے جانے کے عمل کو مجرمانہ قرار دیتے ہوئے بابری مسجد کی زمین کی ملکیت رام جنم بھومی کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ملک میں بڑے پیمانے پر قبول بھی کیا گیا۔ جس کے بعد رواں سال 22 جنوری کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں رام مندر کا افتتاح بھی کر دیا گیا۔

این سی ای آر ٹی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے مطابق اسکول کی نصابی کتابوں کے نصاب پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ 2014 کے بعد سے این سی ای آر ٹی کی نصابی کتب پر نظر ثانی اور اپ ڈیٹ کرنے کا یہ چوتھا دور ہے۔ اس دوران ہمایوں، شاہ جہاں، اکبر، جہانگیر اور اورنگ زیب جیسے مغل بادشاہوں کے کارناموں پر مشتمل دو صفحات پر مشتمل یونٹ کو بھی نصابی کتابوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے شہادت بابری مسجد اور گجرات فسادات کا باب حذف

بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر پر نہیں کی گئی تھی: معروف مؤرخ عرفان حبیب

Last Updated : Jun 16, 2024, 7:11 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.