ETV Bharat / bharat

اے جی نورانی کو دی وائر کے مدیر کا بہترین خراج عقیدت - Tribute to AG Noorani

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 29, 2024, 7:33 PM IST

معروف قانونی اسکالر، مصنف و کالم نگار اے جی نورانی کے انتقال پر دنیا بھر میں دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سرکردہ صحافی اور دی وائر کے مدیر سدھارتھ وردراجن نے ایکس پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے اے جی نورانی کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

اے جی نورانی کو دی وائر کے مدیر کا بہترین خراج عقیدت
اے جی نورانی کو دی وائر کے مدیر کا بہترین خراج عقیدت (Etv Bharat)

حیدرآباد: سرکردہ صحافی اور دی وائر کے مدیر سدھارتھ وردراجن نے نورانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایکس پر ایک طویل پیغام لکھا۔ انھوں نے لکھا کہ، گریٹ اے جی نورانی نہیں رہے۔ یہ اطلاع انکے نگران نے دی کہ ان کا آج دوپہر ممبئی میں انتقال ہو گیا۔ انہیں یار دوست غفور کہہ کر بلاتے تھے اور مجھے فخر ہے کہ میں بھی اس صف میں شامل تھا۔ وہ اب بھی سپریم کورٹ کے ظالمانہ بابری مسجد فیصلے پرایک کتاب پر انہماک سے کام کر رہے تھے جس کی تکمیل پر انہیں یقین کامل تھا۔

سدھارتھ وردراجن لکھتے ہیں، اے جی نورانی کی موت کے ساتھ، ہندوستان نے اپنے ایک بہترین قانونی اسکالر، تاریخ دان، سیاسی تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے محافظ کو کھو دیا ہے۔ وہ ہندوستان کی سفارتی تاریخ، جموں و کشمیر کے سوال، ہندوستانی آئین اور بہت کچھ کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ کشمیر، بھارت-چین تعلقات، حیدرآباد، بنیادی حقوق، بابری مسجد اور ہندوتوا پر ان کی ہر ایک کتاب نے کلاسیکل حیثیت حاصل کی ہے۔ وہ سرکاری دستاویزات (غیر درجہ بند لیکن مشکل سے ہاتھ لگنے والے) کے شکاری تھے۔ بہترین کھانے انکی پسند تھے۔ پرانی دہلی میں گولا کباب اور قورمہ کیلئے وہ کہیں بھی جاسکتے تھے۔ مجھے متعدد بار انکے ساتھ کھانا کھانے کا موقعہ نصیب ہوا ہے۔

اے جی نورانی کو خراج پیش کرتے ہوئے دی وائر کے مدیر نے مزید لکھا کہ، انکی عادتیں پکی تھیں۔ دلی کے آئی آئی سی میں وہ صرف کمرہ نمبر 38 میں رکتے تھے۔ کسے سے ظہرانے پر ملنا ہے تو وہ کسی تیسرے شخص کو آپ کے ساتھ آنے یا ایک سیکنڈ کے لیے بھی میز کے گرد گھومنے نہیں دیں گے۔ کسی بھی قسم کے برے رویے، بے حیائی یا ناانصافی کے لیے ان کی برداشت کی سطح کم تھی اور ایک بار جب کوئی اس سرخ لکیر کو عبور کر لیتا تو وہ ہمیشہ کے لیے انکی زندگی سے خارج ہو جاتا۔ میں چند تجربہ کار صحافیوں یا اسکالرز کو جانتا ہوں جنہیں غفور نے درکنار کردیا ۔ ایک ایسے فرد کیلئے میں نے درگزر کی سفارش بھی کی تھی لیکن بے سود۔

سدھارتھ وردراجن مزید لکھتے ہیں، کشمیر ان کے دل میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ ایک وکیل کے طور پر، انہوں نے شیخ عبداللہ کا دفاع کیا اور ایک مصنف اور آئین ساز کے طور پر، انہوں نے مسئلہ کشمیر کے باعزت اور منصفانہ حل کے لیے کیس بنانے کی پوری کوشش کی۔

کسی اور ملک میں نورانی جیسے عالم اور ماہر قانون و آئین کو ایک قابل احترام قومی خزانہ سمجھا جاتا، ان کے شاندار کالموں کا لوگ انتظار کرتے لیکن ہندوستان میں، ان کی خنجر زبان اور تیز قلم نے انکے لئے ہر طرف سے بہت سے دشمن بنا دئے، خاص طور پر ارباب اقتدار میں ،خواہ کوئی بھی پارٹی اقتدار میں ہو۔ عمر کے آخری حصے میں وہ زیادہ تر بھارت کے فرنٹ لائن اور پاکستان میں ڈان (دونوں بہترین اشاعتی ادارے) تک ہی محدود ہو گئے۔ دو سال قبل خرابی صحت نے انہیں گھر تک ہی محدود رکھا تاہم انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں ان کتابوں کے لیے وقف کر دیں جو وہ لکھنا چاہتے تھے۔

وہ 94 سال کے تھے اور ہمیں 100 کی امید تھی۔ غفور بھائی، ہم آپ کو بہت یاد کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

حیدرآباد: سرکردہ صحافی اور دی وائر کے مدیر سدھارتھ وردراجن نے نورانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایکس پر ایک طویل پیغام لکھا۔ انھوں نے لکھا کہ، گریٹ اے جی نورانی نہیں رہے۔ یہ اطلاع انکے نگران نے دی کہ ان کا آج دوپہر ممبئی میں انتقال ہو گیا۔ انہیں یار دوست غفور کہہ کر بلاتے تھے اور مجھے فخر ہے کہ میں بھی اس صف میں شامل تھا۔ وہ اب بھی سپریم کورٹ کے ظالمانہ بابری مسجد فیصلے پرایک کتاب پر انہماک سے کام کر رہے تھے جس کی تکمیل پر انہیں یقین کامل تھا۔

سدھارتھ وردراجن لکھتے ہیں، اے جی نورانی کی موت کے ساتھ، ہندوستان نے اپنے ایک بہترین قانونی اسکالر، تاریخ دان، سیاسی تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے محافظ کو کھو دیا ہے۔ وہ ہندوستان کی سفارتی تاریخ، جموں و کشمیر کے سوال، ہندوستانی آئین اور بہت کچھ کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ کشمیر، بھارت-چین تعلقات، حیدرآباد، بنیادی حقوق، بابری مسجد اور ہندوتوا پر ان کی ہر ایک کتاب نے کلاسیکل حیثیت حاصل کی ہے۔ وہ سرکاری دستاویزات (غیر درجہ بند لیکن مشکل سے ہاتھ لگنے والے) کے شکاری تھے۔ بہترین کھانے انکی پسند تھے۔ پرانی دہلی میں گولا کباب اور قورمہ کیلئے وہ کہیں بھی جاسکتے تھے۔ مجھے متعدد بار انکے ساتھ کھانا کھانے کا موقعہ نصیب ہوا ہے۔

اے جی نورانی کو خراج پیش کرتے ہوئے دی وائر کے مدیر نے مزید لکھا کہ، انکی عادتیں پکی تھیں۔ دلی کے آئی آئی سی میں وہ صرف کمرہ نمبر 38 میں رکتے تھے۔ کسے سے ظہرانے پر ملنا ہے تو وہ کسی تیسرے شخص کو آپ کے ساتھ آنے یا ایک سیکنڈ کے لیے بھی میز کے گرد گھومنے نہیں دیں گے۔ کسی بھی قسم کے برے رویے، بے حیائی یا ناانصافی کے لیے ان کی برداشت کی سطح کم تھی اور ایک بار جب کوئی اس سرخ لکیر کو عبور کر لیتا تو وہ ہمیشہ کے لیے انکی زندگی سے خارج ہو جاتا۔ میں چند تجربہ کار صحافیوں یا اسکالرز کو جانتا ہوں جنہیں غفور نے درکنار کردیا ۔ ایک ایسے فرد کیلئے میں نے درگزر کی سفارش بھی کی تھی لیکن بے سود۔

سدھارتھ وردراجن مزید لکھتے ہیں، کشمیر ان کے دل میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ ایک وکیل کے طور پر، انہوں نے شیخ عبداللہ کا دفاع کیا اور ایک مصنف اور آئین ساز کے طور پر، انہوں نے مسئلہ کشمیر کے باعزت اور منصفانہ حل کے لیے کیس بنانے کی پوری کوشش کی۔

کسی اور ملک میں نورانی جیسے عالم اور ماہر قانون و آئین کو ایک قابل احترام قومی خزانہ سمجھا جاتا، ان کے شاندار کالموں کا لوگ انتظار کرتے لیکن ہندوستان میں، ان کی خنجر زبان اور تیز قلم نے انکے لئے ہر طرف سے بہت سے دشمن بنا دئے، خاص طور پر ارباب اقتدار میں ،خواہ کوئی بھی پارٹی اقتدار میں ہو۔ عمر کے آخری حصے میں وہ زیادہ تر بھارت کے فرنٹ لائن اور پاکستان میں ڈان (دونوں بہترین اشاعتی ادارے) تک ہی محدود ہو گئے۔ دو سال قبل خرابی صحت نے انہیں گھر تک ہی محدود رکھا تاہم انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں ان کتابوں کے لیے وقف کر دیں جو وہ لکھنا چاہتے تھے۔

وہ 94 سال کے تھے اور ہمیں 100 کی امید تھی۔ غفور بھائی، ہم آپ کو بہت یاد کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.