ETV Bharat / bharat

بلڈوزر جسٹس: سپریم کورٹ کا یوپی حکومت کو 25 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم، کہا 'آپ راتوں رات مکانات منہدم نہیں کر سکتے'

سپریم کورٹ نے حکام کو ہدایت دی کہ وہ 2019 میں راتوں رات مکان گرانے کے لیے متاثرین کو 25 لاکھ روپے ادا کرے۔

UP BULLDOZER ISSUE RS 25 LAKH COMP
آپ بلڈوزر سے راتوں رات مکانات منہدم نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ (ANI)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : 2 hours ago

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو اتر پردیش کے حکام کو ہدایت دی کہ وہ ان کو 25 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے، جن کا گھر 2019 میں سڑک کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے لیے منہدم کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے حکام سے کہا کہ آپ بلڈوزر سے راتوں رات کسی کا گھر نہیں گرا سکتے۔ سپریم کورٹ نے انہدام سے ٹھیک پہلے مقام پر اعلان کرنے پر اسے 'انتشار' قرار دیا۔

غور طلب ہے کہ یہ کیس چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل تین ججوں کی بنچ کے سامنے آیا۔ بنچ نے ریاستی عہدیداروں کے رویہ پر تنقید کی۔ بنچ نے کہا، ’’آپ بلڈوزر سے راتوں رات کسی کے مکانات نہیں گرا سکتے۔‘‘

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بغیر کسی نوٹس کے کسی کے گھر میں داخل ہوانا اور اسے منہدم کرنا انتشار ہے۔ سپریم کورٹ نے یوپی کے چیف سکریٹری کو مہاراج گنج ضلع میں غیر قانونی انہدام سے متعلق معاملے کی جانچ کرنے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ بنچ نے یہ مشاہدات منوج تبریوال آکاش کے شکایتی خط کی بنیاد پر 2020 میں دائر کی گئی ایک رٹ درخواست کی سماعت کے دوران دیے۔ منوج کا گھر مہاراج گنج ضلع میں 2019 میں منہدم کر دیا گیا تھا۔ سینئر ایڈوکیٹ سدھارتھ بھٹناگر اور ایڈوکیٹ شبھم کلشریسٹھا نے سپریم کورٹ میں آکاش کی نمائندگی کی۔

ریاستی حکومت نے دلیل دی تھی کہ آکاش نے سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہے۔ بنچ نے پوچھا، "آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے 3.7 میٹر پر قبضہ کیا ہے، ہم اسے تسلیم کرتے ہیں، ہم انہیں اس کے لیے سرٹیفکیٹ نہیں دے رہے ہیں، لیکن آپ لوگوں کے گھر اس طرح گرانا کیسے شروع کر سکتے ہیں؟"

یہ مکمل طور پر من مانی ہے:

بنچ نے کہا کہ یہ مکمل طور پر من مانی ہے۔ بنچ نے ریاستی عہدیداروں کے ذریعہ مناسب طریقہ کار پر عمل نہ کرنے پر سوالات اٹھائے۔ بنچ نے کہا کہ ان کے پاس ایک حلف نامہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ بنچ نے کہا، ''آپ صرف موقع پر گئے اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے لوگوں کو اطلاع دی۔"

عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ 100 سے زائد دیگر تعمیرات بھی گرائی گئی ہیں اور لوگوں کو صرف عوامی اعلانات کے ذریعے آگاہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے زور دیا کہ حکام کو خاندانوں کو نکالنے کے لیے وقت دینا چاہیے اور پوچھا، "گھریلو سامان کا کیا ہوگا؟ اس لیے مناسب طریقہ کار پر عمل کیا جانا چاہیے۔"

این ایچ آر سی کی رپورٹ کیا کہتی ہے:

عدالت نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا کہ وہاں زیادہ سے زیادہ 3.70 میٹر تجاوزات ہیں، لیکن پورے گھر کو گرانا کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہے۔ کمیشن نے درخواست گزار کو عبوری معاوضہ دینے، اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے اور اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کرنے کی سفارش کی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی ہے کہ عدالتی حکم کی کاپی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو بھیجی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

سورج پور دوہرے قتل کے ملزم کلدیپ ساہو کے گھر پر چلا بلڈوزر

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو اتر پردیش کے حکام کو ہدایت دی کہ وہ ان کو 25 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے، جن کا گھر 2019 میں سڑک کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے لیے منہدم کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے حکام سے کہا کہ آپ بلڈوزر سے راتوں رات کسی کا گھر نہیں گرا سکتے۔ سپریم کورٹ نے انہدام سے ٹھیک پہلے مقام پر اعلان کرنے پر اسے 'انتشار' قرار دیا۔

غور طلب ہے کہ یہ کیس چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل تین ججوں کی بنچ کے سامنے آیا۔ بنچ نے ریاستی عہدیداروں کے رویہ پر تنقید کی۔ بنچ نے کہا، ’’آپ بلڈوزر سے راتوں رات کسی کے مکانات نہیں گرا سکتے۔‘‘

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بغیر کسی نوٹس کے کسی کے گھر میں داخل ہوانا اور اسے منہدم کرنا انتشار ہے۔ سپریم کورٹ نے یوپی کے چیف سکریٹری کو مہاراج گنج ضلع میں غیر قانونی انہدام سے متعلق معاملے کی جانچ کرنے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ بنچ نے یہ مشاہدات منوج تبریوال آکاش کے شکایتی خط کی بنیاد پر 2020 میں دائر کی گئی ایک رٹ درخواست کی سماعت کے دوران دیے۔ منوج کا گھر مہاراج گنج ضلع میں 2019 میں منہدم کر دیا گیا تھا۔ سینئر ایڈوکیٹ سدھارتھ بھٹناگر اور ایڈوکیٹ شبھم کلشریسٹھا نے سپریم کورٹ میں آکاش کی نمائندگی کی۔

ریاستی حکومت نے دلیل دی تھی کہ آکاش نے سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہے۔ بنچ نے پوچھا، "آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے 3.7 میٹر پر قبضہ کیا ہے، ہم اسے تسلیم کرتے ہیں، ہم انہیں اس کے لیے سرٹیفکیٹ نہیں دے رہے ہیں، لیکن آپ لوگوں کے گھر اس طرح گرانا کیسے شروع کر سکتے ہیں؟"

یہ مکمل طور پر من مانی ہے:

بنچ نے کہا کہ یہ مکمل طور پر من مانی ہے۔ بنچ نے ریاستی عہدیداروں کے ذریعہ مناسب طریقہ کار پر عمل نہ کرنے پر سوالات اٹھائے۔ بنچ نے کہا کہ ان کے پاس ایک حلف نامہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ بنچ نے کہا، ''آپ صرف موقع پر گئے اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے لوگوں کو اطلاع دی۔"

عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ 100 سے زائد دیگر تعمیرات بھی گرائی گئی ہیں اور لوگوں کو صرف عوامی اعلانات کے ذریعے آگاہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے زور دیا کہ حکام کو خاندانوں کو نکالنے کے لیے وقت دینا چاہیے اور پوچھا، "گھریلو سامان کا کیا ہوگا؟ اس لیے مناسب طریقہ کار پر عمل کیا جانا چاہیے۔"

این ایچ آر سی کی رپورٹ کیا کہتی ہے:

عدالت نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا کہ وہاں زیادہ سے زیادہ 3.70 میٹر تجاوزات ہیں، لیکن پورے گھر کو گرانا کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہے۔ کمیشن نے درخواست گزار کو عبوری معاوضہ دینے، اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے اور اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کرنے کی سفارش کی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی ہے کہ عدالتی حکم کی کاپی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو بھیجی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

سورج پور دوہرے قتل کے ملزم کلدیپ ساہو کے گھر پر چلا بلڈوزر

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.