نئی دہلی: اترپردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دینے والے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔ یہ درخواست انجم قادری کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ انجم قادری نے یہ درخواست ایڈوکیٹ سنجیو ملہوترا کے توسط سے فائل کی ہے۔
اس عرضی میں درخواست گزار نے کہا کہ "ہائی کورٹ کا حکم مقننہ کی طاقت کو مجروح کرنے والا ہے اور یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ ہائی کورٹ کے اس عدالتی فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کی ایک سریز خاص طور پر انوپ بارانوال بمقابلہ یونین آف یونین معاملے میں آئینی بنچ فیصلے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
درخواست گزار نے ہائی کورٹ کے حکم پر عبوری روک لگانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ "ہائی کورٹ اس کیس کے حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہا کہ آرٹیکل 14، 21-A اور آرٹیکل 29 (2) R/w آرٹیکل 30 (1) برابر نہیں ہے، جس کا مشاہدہ متنازع حکم میں کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ فیصلہ ایک طبقے کے خلاف سنگین ناانصافی ہے۔"
22 مارچ کو، جسٹس وویک چودھری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی ایک ڈویژن بنچ نے انشومن سنگھ راٹھور کی طرف سے دائر ایک درخواست پر مدرسہ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا "ہم سمجھتے ہیں کہ مدرسہ ایکٹ، 2004، سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی ہے، جو کہ ہندوستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے، آرٹیکل 14، 21 اور 21-A کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ہندوستان کا آئین اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ایکٹ 1956 کے سیکشن 22 کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے مطابق مدرسہ ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دیا جا رہا ہے۔
بنچ نے مدارس میں بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم کے حق کی تعمیل کے تئیں بھی خدشات کا اظہار کیا تھا، نیز مدارس میں زیر تعلیم بچوں کو سرکاری اسکولوں میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے اس اسکیم بھی بنانے کی ہدایت دی تھی۔ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ ریاستی حکومت کی جانب سے اسلامی تعلیمی اداروں کا سروے کرنے کے مہینوں کے بعد سنایا ۔ ریاستی حکومت نے اکتوبر 2023 میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) بھی تشکیل دی تاکہ مدارس کو بیرون ملک سے ملنے والی فنڈنگ کی جانچ کی جاسکے۔
یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ پر ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مایوسی - Reaction On Madrasa Board Decision