حیدرآباد: سماج وادی پارٹی نے لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے اقراء حسن کو کیرانہ لوک سبھا سیٹ سے ٹکٹ دیا ہے۔ یہ وہی سیٹ ہے جس پر ایس پی اور جینت چودھری کی آر ایل ڈی کے درمیان تنازعہ ہوا تھا۔ دراصل ایس پی نے 2022 میں کیرانہ اسمبلی سے ناہید حسن کو میدان میں اتارا تھا۔
اقراء حسن کے دادا، والد اور والدہ رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ جبکہ بڑے بھائی ناہید حسن مسلسل تیسری بار ایم ایل اے ہیں۔ اقراء حسن نو سال سے کیرانہ کی سیاست میں سرگرم ہیں۔ کیرانہ سے ایس پی ایم ایل اے ناہید حسن ان کے بڑے بھائی ہیں۔ اقراء حسن نے لندن یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے وہیں سے ایل ایل ایم کیا ہے۔
اختر حسن کیرانہ لوک سبھا سیٹ سے ایم پی رہے
سیاست میں حسن خاندان کے سربراہ اختر حسن نے میونسپل کونسل کے انتخابات میں کونسلر کا انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ کیرانہ لوک سبھا سیٹ سے چیئرمین اور پھر ایم پی بنے۔ اختر نے اپنے بیٹے منور حسن کو سیاست میں متعارف کرایا، جنہوں نے مغربی یوپی کے ایک بڑے لیڈر کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔ ان کی موت کے بعد ان کی اہلیہ تبسم بیگم کیرانہ لوک سبھا سیٹ سے دو بار رکن پارلیمنٹ رہیں۔ تبسم کے بیٹے ناہید حسن اس وقت کیرانہ اسمبلی سے ایم ایل اے ہیں۔ اب اقراء حسن اس خاندان کی دوسری خاتون رکن پارلیمان بنی ہیں۔
سی اے اے کے خلاف احتجاج کر اقراء حسن سرخیوں میں آئی
- 27 سالہ اقراء حسن نے اپنی ابتدائی تعلیم کیرانہ میں حاصل کی، جبکہ انہوں نے کوئینز میری اسکول دہلی سے 12ویں کی ڈگری حاصل کی۔
- لیڈی شری رام کالج سے گریجویشن کیا۔
- دہلی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔
- یونیورسٹی آف لندن سے بین الاقوامی قانون اور سیاست میں پوسٹ گریجویشن کیا۔
- وہ لندن میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرکے سرخیوں میں آئی تھیں۔
- وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 2021 میں گھر واپس آئی۔ اس کے بعد ہی وہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہوئیں۔
- اقراء حسن نے 2016 میں ڈسٹرکٹ پنچایت ممبر کا الیکشن لڑا، لیکن وہ پانچ ہزار ووٹوں سے ہار گئیں۔
- ایم ایل اے ناہید حسن 2022 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے جیل میں تھے۔ اس وقت ان کی چھوٹی بہن اقراء نے انتخابات کے دوران الیکشن مینجمنٹ کی ذمہ داری سنبھالی۔ بہن کی محنت کو بھائی کی جیت کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
کیرانہ لوک سبھا سیٹ کا ذکر ہوتے ہی حسن خاندان کا نام سیاست کے بااثر خاندانوں میں شامل ہوتا ہے۔ اقراء حسن کے دادا نے پہلی بار 1984 میں کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ 1996 میں ان کے والد منور حسن ایس پی کے ٹکٹ پر جیتے تھے۔ ان کی والدہ تبسم حسن 2009 اور 2018 کے ضمنی انتخابات میں ایم پی بنیں۔ خاندانی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے، انہوں نے پہلی بار 2016 میں ضلع پنچایت کے انتخابات میں سابق کابینہ وزیر اور سینئر ایم ایل سی وریندر سنگھ کے بیٹے منیش چوہان کے خلاف مقابلہ کیا، جس میں انہیں شکست ملی۔
سال 2017 میں جب بھائی ناہید حسن نے اسمبلی الیکشن لڑا تو انہوں نے باگ ڈور سنبھالی۔ اقراء حسن نے اپنے بھائی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں ناہید حسن ایک گینگسٹر کیس میں جیل میں تھے، جب اقراء نے انتخابات کی مکمل کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ یہیں سے ان کی سیاسی صلاحیتوں اور موثر انتظام کو سب نے دیکھا۔ جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنے بھائی کو ایم ایل اے بنایا جس کے بعد ان کی شناخت مزید مضبوط ہوئی۔
- اکیلے چلو کی حکمت عملی نے کام کیا
انتخابات میں اقراء حسن کا سیدھا مقابلہ بی جے پی آر ایل ڈی کے امیدوار پردیپ چودھری سے تھا۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک اور کیشو پریاد موریہ تک، آر ایل ڈی کے قومی صدر جینت چودھری نے بی جے پی امیدوار کے لیے مہم چلائی تھی، لیکن ایس پی امیدوار اقراء حسن انتخابی میدان میں اکیلے کھڑی تھی۔ وہ شہر سے گاؤں اور دیہی علاقوں تک پگڈنڈیوں پر اکیلی چلی اور فتح کی کہانی لکھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انہوں نے اکیلے چلنے کی حکمت عملی اپنائی اور کامیابی حاصل کی۔
- نئے چہرے اور نرم طبیعت کے لوگ قائل ہوئے
اقراء حسن تقریباً ایک سال سے انتخابی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ لوگوں کے خوشی اور غم میں شرکت کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ لوگ بھی انہیں پسند کرنے لگے۔ نئے چہرے کے ساتھ ساتھ ان کی نرم شبیہ اور سادہ طبیعت نے لوگوں کے دل جیت لیے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلم ووٹوں کے ساتھ ساتھ انہیں سماج کے تمام طبقات کے ووٹ بھی ملے ہیں۔ انہوں نے بغیر کسی شور و ہنگامے کے انتخابی مہم بھی چلائی۔ انہیں کیرانہ کی بیٹی ہونے اور نکڑ میں ننیہال ہونے کا فائدہ بھی ملا۔
- لوگوں کے غصے کو اپنی فتح بنایا
کوئی نہیں جانتا کہ انتخابی اونٹ کس طرف بیٹھے گا۔ سیاست میں موقع سے فائدہ اٹھانے والا کھلاڑی ہوتا ہے۔ انتخابات کے دوران لوگ بی جے پی-آر ایل ڈی کے امیدواروں سے کھلے عام ناخوش تھے۔ اقراء حسن نے اس کا فائدہ اٹھایا اور ان کے درمیان پہنچ کر فتح درج کرائی۔ انتخابی مہم اور عوامی رابطوں کے دوران اقراء کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ ان تمام دیہاتوں اور قصبوں تک پہنچ جائیں جہاں حریف کی مخالفت زیادہ ہے۔