نئی دہلی: کیرالہ حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ وہ مرکز کو شہریت ترمیمی قانون 2019 (سی اے اے) کو نافذ کرنے سے روکنے کے لیے عبوری حکم نامہ طلب کرے، جس کے لیے حال ہی میں نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ ایک درخواست میں، ایل ڈی ایف حکومت نے عرض کیا کہ سی اے اے قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی جو لوگ اسی کے مطابق شہریت کے حقدار بن چکے ہیں، وہ شہریت کے لیے درخواست دیں گے۔ ایسے میں مدعی ریاست سی اے اے کی تعمیل کو یقینی بنانے کی پابند ہوگی۔ جب کہ سی اے قانون میں پیش کردہ قواعد و ضوابط غیر آئینی ہیں۔
ریاستی حکومت کا اصل مقدمہ عدالت میں زیر التوا ہے، جہاں اس نے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے صرف چھ مذہبی اقلیتوں کو شہریت دینے والے 2019 کے قانون کو چیلنج کیا ہے۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ مذہب اور ملک کی بنیاد پر درجہ بندی امتیازی، من مانی، غیر منصفانہ اور سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ سیکولرزم کو اس عدالت نے بار بار آئین کا بنیادی ڈھانچہ تسلیم کیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ سی اے اے قانون کے نفاذ کا نوٹیفکیشن ایکٹ کی منظوری کے تقریباً پانچ سال بعد جاری کیا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرکز کو معلوم تھا کہ اس قانون کو نافذ کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔ ریاست نے کہا کہ یہ ترمیمی ایکٹ ایک امتیازی قانون ہے۔ مذکورہ قانون کو نافذ کرنے پر آئینی پابندی ہے جو کہ آئین کے سیکولر مزاج کی خلاف ورزی ہے لیکن اس کے باوجود مقننہ نے اسے نافذ کیا ہے۔
کیرالہ حکومت نے مزید کہا کہ اگرچہ شہریت ترمیمی بل کے اعتراضات اور وجوہات کے ضمن میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتوں پر ظلم و ستم کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن یہ قانون استفادہ کرنے افراد کے طبقے کو محدود نہیں کرتا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ترمیم کی توسیع ان لوگوں تک کی گئی ہے جو درحقیقت ظلم و ستم کے شکار ہیں یا ستائے جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اس قانون کے مقاصد کے لیے تین ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی گروہ بندی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس طرح کا گروہ مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی مذہبی اقلیتوں کے غیر معقول طور پر منتخب طبقے کے لیے خصوصی سلوک کا جواز پیش کرنا کسی بھی عقلی اصول پر مبنی نہیں ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 'پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ایک حصے کو دیے گئے حقوق سری لنکا، میانمار، نیپال اور بھوٹان کی مذہبی اقلیتوں کو نہ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مندرجہ بالا تین ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی بغیر کسی منطق یا معیاری اصولوں کے صوابدیدی درجہ بندی واضح طور پر آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔
اگر پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندو قابل اطلاق ترمیمی ایکٹ کے تحت آتے ہیں تو مرکز نے سری لنکا میں بنیادی طور پر تامل نسل کے ہندوؤں اور نیپال کے ترائی میں ہندو مدھیسیوں کے مسائل پر غور نہیں کیا، جن کے آباؤ اجداد اس وقت کے برطانوی ہندوستان سے ہجرت کر کے گئے تھے، جو کہ اٹھارویں صدی میں بالترتیب سری لنکا اور نیپال چلے گئے تھے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں مبینہ طور پر شیعہ مسلمانوں کو ظلم و ستم کا سامنا ہے اور ہزارہ طبقہ مبینہ طور پر افغانستان میں سب سے زیادہ نشانے پر رہنے والا نسلی اقلیتی گروہ ہے۔ اگر اس ترمیمی ایکٹ کا مقصد افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں مذہبی ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے تو ان ممالک کے احمدی اور شیعہ بھی ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی برادریوں کے ساتھ مساوی سلوک کے حقدار ہیں۔'
درخواست میں مزید کہا گیا کہ تمام ظلم و ستم صرف مذہبی بنیادوں پر نہیں ہوتے بلکہ مختلف وجوہات جیسے نسلی، لسانی وغیرہ بنیادوں پر بھی ہوتے ہیں۔ یہ قانون نسلی، لسانی وغیرہ بنیاد پر ہونے والے مظالم کو ان تین ممالک کے مذکورہ زمرے میں بھی شامل نہیں کرتا۔ یہ قانون پاکستان میں بلوچ، سندھی، پشتون اور مہاجروں اور بنگلہ دیش میں بہاریوں کے ساتھ ہو رہے نسلی مسائل کا احاطہ نہیں کرتا۔
مزید پڑھیں: آسام کے ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ اویسی
سپریم کورٹ سی اے اے کے نفاذ کی مخالفت کرنے والی درخواستوں پر سماعت کے لیے تیار
سی اے اے کے بارے میں فکر مند اور اس کے نفاذ کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں: امریکہ
ہمارا آئین تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے: بھارت کا امریکی ریمارکس پر رد عمل