ملاپورم (کیرالہ): پیر کو کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے دعویٰ کیا کہ 'بھارت ماتا کی جئے' اور 'جئے ہند' کے نعرے سب سے پہلے دو مسلمانوں نے لگائے تھے، بی جے پی کو چاہئے کہ ان نعروں کو ترک کردے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر پروگراموں میں سنگھ پریوار کے لیڈران لوگوں سے 'بھارت ماتا کی جئے' کا نعرہ لگانے کو کہتے ہیں۔ کیا سنگھ پریوار والوں کو یہ معلوم ہے کہ بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ کس نے لگایا؟ کیا وہ سنگھ پریوار کا لیڈر تھا؟ نہیں وہ آر ایس ایس کا لیڈر نہیں بلکہ ایک مسلمان تھے جن کا نام عظیم اللہ خان ہے۔
انہوں نے کہا، عظیم اللہ خان 19ویں صدی میں مراٹھا پیشوا نانا صاحب کے یہاں وزیر تھے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ انہوں نے بھارت ماتا کی جئے کی اصطلاح بنائی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا سنگھ پریوار اب اس نعرے کو مستقبل میں استعمال کریگا یا نہیں۔
یہ ریمارکس پیر کو ملاپورم میں شہریت (ترمیمی) قانون کے نفاذ کے خلاف ایک ریلی کے دوران وزیرِاعلیٰ وجین نے ان قائدین پر تنقید کرتے ہوئے نے دیے تھے جو بھارت سے مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
اسی طرح ایک سابق سفارت کار عابد حسن نے 'جئے ہند' کی اصطلاح تیار کی۔ تو 'جئے ہند' بھی ایک مسلمان کے ذریعہ تیار کردہ سلوگن ہے۔ اس لیے میں کہنا چاہتا ہوں کہ سنگھ پریوار جو کہتا ہے کہ مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان بھیج دیا جائے، اس تاریخ کو سمجھنا چاہیے۔
سی ایم نےکہا کہ آئیے فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے اور مزید جمہوری بھارت کی تعمیر کے لیے متحد ہو کر آگے بڑھیں۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں، سی ایم نے کہا، آج ہم ملاپورم میں سی اے اے کے نفاذ کے خلاف ایک بڑی ریلی میں شامل ہوئے ہیں۔ لوگ بڑی تعداد میں احتجاج کے لیے نکلے، جو کیرالہ کے مضبوط سیکولر ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔
اس مہینے کے شروع میں، سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون 2024 پر روک لگانے کی درخواستوں پر مرکز کو نوٹس جاری کیا، جو کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، 2019 کو لاگو کرنے کے لیے لائے گئے تھے۔
مرکزی حکومت کی طرف سے سی اے اے کے قوانین جاری کرنے کے ایک دن بعد، کیرالہ کی سیاسی جماعت انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور قانون کے نفاذ پر روک لگانے کی درخواست کی۔ 11 مارچ کو، مرکزی حکومت نے 2019 کے متنازعہ سی اے اے کو مؤثر طریقے سے نافذ کرتے ہوئے، شہریت (ترمیمی) قوانین جاری کئے تھے۔
انیس سو پچپن کے شیریت والے قانون میں ترمیم کرکے دوہزار انیس میں ایک نیا قانون بنایا گیا جس میں غیر قانونی طریقہ سے تارکین وطن کو شہریت کا اہل بنانا ہے اگر وہ (a) ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی یا عیسائی برادریوں سے تعلق رکھتے ہوں، یا پھر وہ (b) افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے تعلق رکھتے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: