ETV Bharat / bharat

کیا جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے پابندی ہٹائی جائے گی؟

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 14, 2024, 3:35 PM IST

مرکزی حکومت نے یو اے پی اے کے تحت جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر عائد پابندی پر غور کرنے کیلئے ایک ٹربیونل تشکیل دیا ہے۔ الیکشن کے انعقاد سے قبل اس ٹربیونل کی تشکیل نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ جماعت پر 2019 میں پانچ سال کیلئے پابندی عائد کی گئی تھی جس میں گزشتہ فروری مزید پانچ سال کا اضافہ کیا گیا۔ لبریشن فرنٹ، مسلم لیگ، مسلم کانفرنس اور ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

کیا جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے پابندی ہٹائی جائے گی؟
کیا جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے پابندی ہٹائی جائے گی؟

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے ایک غیر معمولی فیصلے کے تحت جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر پابندی کو برقرار رکھنے سے متعلق ایک ٹربیونل قائم کیا ہے جس میں دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ ٹربیونل طے کرے گا کہ آیا جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے کے اقدام کے پیچھے مکمل جواز ہے یا نہیں۔ ٹربیونل کے قیام کا حکمنامہ بدھوار کو جاری کیا گیا جو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ کے پس منظر میں ہے۔

جموں و کشمیر میں الیکشن منعقد کرنے سے قبل مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ کافی معنی خیز ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ نے تین ہفتے قبل 27 فروری کو ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں جماعت اسلامی پر عائد پابندی کو مزید پانچ سال تک بڑھایا گیا تھا۔ جماعت پر پابندی 28 فروری 2019 کو عائد کی گئی تھی جس کے فوراً بعد اس پارٹی کے سبھی اعلیٰ قائدین کو حراست میں لیا گیا اور سابق ریاست میں اس تنظیم کے اثاثوں کو منسلک کر دیا گیا۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے گزشتہ چھ برسوں کے دوران جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں کے گھروں اور دفاتر میں چھاپے ڈالے ہیں اور انکے اثاثے یا تو ضبط کئے یا انہیں منسلک کر دیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی علیحدگی پسند جماعت ہے جس نے عسکریت پسندی کی پشت پناہی کی ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ 27 فروری کو جو نوٹیفکیشن، گیزٹ آف انڈیا میں پابندی کے تعلق سے شائع کیا گیا تھا، اس کی ایک ذیلی دفعہ کے تحت حاصل شدہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ مجریہ 1967 کی دفعہ چار کی ذیلی دفعہ ایک اور دفعہ پانچ کی شق ایک کے تحت مرکزی حکومت نے اس ٹربیونل کو تشکیل دینے کا حکم دیا ہے جس میں دلی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس نوین چاولہ شامل ہوں گے۔ یہ ٹربیونل یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا مرکزی وزارت داخلہ کے پاس جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے اور اسکو برقرار رکھنے کیلئے کافی وجوہات ہیں یا نہیں۔

ذرائع سے ای ٹی وی بھارت کو معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اور مرکزی وزارت داخلہ کے درمیان پابندی کے حوالے سے گزشتہ کافی وقت سے مذاکرات چل رہے ہیں لیکن اس میں فریقین کی طرف سے عائد کردہ سخت شرائط کی وجہ سے کوئی اتفاق رائے نہیں ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ موقف ہے کہ وہ ایک سیاسی اور سماجی تنظیم ہے جس نے ماضی میں جموں و کشمیر کے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ بھی لیا ہے اور اسکے اراکین ایوان اسمبلی میں بھی اس جماعت کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ حکومت ہند کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے آئین کے مطابق وہ کشمیر کو ایک تصفیہ طلب مسئلہ مانتی ہے، جو ناقابل قبول ہے اور ماضی میں جماعت اسلامی کے کارکن عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ منسلک رہے ہیں۔ حکومت ہند کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی ٹیرر فنڈنگ اور ملک دشمنی کے متعدد معاملات میں ملوث ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی نے بعض اراکین کو مذاکرات کیلئے اجازت دی تھی، اور ان مذاکرات کے پس منظر میں جماعت اسلامی کے ایک سرکردہ رکن نے گزشتہ برس جموں و کشمیر کی ایک ایسی مین اسٹریم سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جو جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے فیصلے کی مخالف نہیں ہے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ میں جماعت پر پابندی برقرار رکھنے یا نہ رکھنے پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ ایک سراغ رساں ایجنسی کا خیال ہے کہ جماعت کو واپس سیاسی میدان میں لانے سے کشمیر کے اہم مسائل حل ہو سکتے ہیں کیونکہ جماعت کے کشمیر کے ہر علاقے میں موجود ہیں۔ تاہم معلوم ہوا ہے کہ جموں و کشمیر پولیس کا موقف ہے کہ جماعت پر پابندی میں کوئی نرمی لانے کے بجائے اسے مزید سخت کیا جانا چاہئے۔

معلوم ہوا ہے کہ کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی پارٹیاں بھی جماعت اسلامی کے حوالے سے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتیں۔ ذرائع کے مطابق جو مین اسٹریم پارٹی جماعت اسلامی کو سیاسی رول دینے کی وکالت کرتی تھی، اسکے ہی ایک سینئر لیڈر نے نئی دہلی جاکر اس بات کی سخت مخالفت کی ہے اور حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کو سیاسی سطح پر دوبارہ زمین فراہم کی گئی تو اسکے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ شمالی کشمیر سے تعلق رکھنے والے یہ لیڈر خود بھی عسکریت پسند رہے ہیں اور بعد میں منحرف ہوکر ملٹنسی مخالف ملیشیا اخوان المسلین کے لیڈر رہے ہیں۔ انکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اسمبلی کے رکن بھی بنے اور غلام نبی آزاد کی حکومت میں وزیر مملکت بھی تھے۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے فوری پہلے اور بعد میں کئی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی جن میں جماعت اسلامی، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ، تحریک حریت، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی، مسلم لیگ (مسرت عالم گروپ)، مسلم کانفرنس وغیرہ شامل ہیں۔ ان تنظیموں کے لیڈر بشمول محمد یاسین ملک، مسرت عالم بٹ اور شبیر احمد شاہ جیلوں میں بند ہیں۔

مزید پڑھیں: جماعت اسلامی کشمیر: اصلاحی خدمات اور سیاسی تنازعات و پابندی تک

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے ایک غیر معمولی فیصلے کے تحت جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر پابندی کو برقرار رکھنے سے متعلق ایک ٹربیونل قائم کیا ہے جس میں دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ ٹربیونل طے کرے گا کہ آیا جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے کے اقدام کے پیچھے مکمل جواز ہے یا نہیں۔ ٹربیونل کے قیام کا حکمنامہ بدھوار کو جاری کیا گیا جو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ کے پس منظر میں ہے۔

جموں و کشمیر میں الیکشن منعقد کرنے سے قبل مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ کافی معنی خیز ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ نے تین ہفتے قبل 27 فروری کو ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں جماعت اسلامی پر عائد پابندی کو مزید پانچ سال تک بڑھایا گیا تھا۔ جماعت پر پابندی 28 فروری 2019 کو عائد کی گئی تھی جس کے فوراً بعد اس پارٹی کے سبھی اعلیٰ قائدین کو حراست میں لیا گیا اور سابق ریاست میں اس تنظیم کے اثاثوں کو منسلک کر دیا گیا۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے گزشتہ چھ برسوں کے دوران جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں کے گھروں اور دفاتر میں چھاپے ڈالے ہیں اور انکے اثاثے یا تو ضبط کئے یا انہیں منسلک کر دیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی علیحدگی پسند جماعت ہے جس نے عسکریت پسندی کی پشت پناہی کی ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ 27 فروری کو جو نوٹیفکیشن، گیزٹ آف انڈیا میں پابندی کے تعلق سے شائع کیا گیا تھا، اس کی ایک ذیلی دفعہ کے تحت حاصل شدہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ مجریہ 1967 کی دفعہ چار کی ذیلی دفعہ ایک اور دفعہ پانچ کی شق ایک کے تحت مرکزی حکومت نے اس ٹربیونل کو تشکیل دینے کا حکم دیا ہے جس میں دلی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس نوین چاولہ شامل ہوں گے۔ یہ ٹربیونل یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا مرکزی وزارت داخلہ کے پاس جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے اور اسکو برقرار رکھنے کیلئے کافی وجوہات ہیں یا نہیں۔

ذرائع سے ای ٹی وی بھارت کو معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اور مرکزی وزارت داخلہ کے درمیان پابندی کے حوالے سے گزشتہ کافی وقت سے مذاکرات چل رہے ہیں لیکن اس میں فریقین کی طرف سے عائد کردہ سخت شرائط کی وجہ سے کوئی اتفاق رائے نہیں ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ موقف ہے کہ وہ ایک سیاسی اور سماجی تنظیم ہے جس نے ماضی میں جموں و کشمیر کے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ بھی لیا ہے اور اسکے اراکین ایوان اسمبلی میں بھی اس جماعت کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ حکومت ہند کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے آئین کے مطابق وہ کشمیر کو ایک تصفیہ طلب مسئلہ مانتی ہے، جو ناقابل قبول ہے اور ماضی میں جماعت اسلامی کے کارکن عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ منسلک رہے ہیں۔ حکومت ہند کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی ٹیرر فنڈنگ اور ملک دشمنی کے متعدد معاملات میں ملوث ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی نے بعض اراکین کو مذاکرات کیلئے اجازت دی تھی، اور ان مذاکرات کے پس منظر میں جماعت اسلامی کے ایک سرکردہ رکن نے گزشتہ برس جموں و کشمیر کی ایک ایسی مین اسٹریم سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جو جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے فیصلے کی مخالف نہیں ہے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ میں جماعت پر پابندی برقرار رکھنے یا نہ رکھنے پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ ایک سراغ رساں ایجنسی کا خیال ہے کہ جماعت کو واپس سیاسی میدان میں لانے سے کشمیر کے اہم مسائل حل ہو سکتے ہیں کیونکہ جماعت کے کشمیر کے ہر علاقے میں موجود ہیں۔ تاہم معلوم ہوا ہے کہ جموں و کشمیر پولیس کا موقف ہے کہ جماعت پر پابندی میں کوئی نرمی لانے کے بجائے اسے مزید سخت کیا جانا چاہئے۔

معلوم ہوا ہے کہ کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی پارٹیاں بھی جماعت اسلامی کے حوالے سے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتیں۔ ذرائع کے مطابق جو مین اسٹریم پارٹی جماعت اسلامی کو سیاسی رول دینے کی وکالت کرتی تھی، اسکے ہی ایک سینئر لیڈر نے نئی دہلی جاکر اس بات کی سخت مخالفت کی ہے اور حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کو سیاسی سطح پر دوبارہ زمین فراہم کی گئی تو اسکے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ شمالی کشمیر سے تعلق رکھنے والے یہ لیڈر خود بھی عسکریت پسند رہے ہیں اور بعد میں منحرف ہوکر ملٹنسی مخالف ملیشیا اخوان المسلین کے لیڈر رہے ہیں۔ انکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اسمبلی کے رکن بھی بنے اور غلام نبی آزاد کی حکومت میں وزیر مملکت بھی تھے۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے فوری پہلے اور بعد میں کئی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی جن میں جماعت اسلامی، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ، تحریک حریت، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی، مسلم لیگ (مسرت عالم گروپ)، مسلم کانفرنس وغیرہ شامل ہیں۔ ان تنظیموں کے لیڈر بشمول محمد یاسین ملک، مسرت عالم بٹ اور شبیر احمد شاہ جیلوں میں بند ہیں۔

مزید پڑھیں: جماعت اسلامی کشمیر: اصلاحی خدمات اور سیاسی تنازعات و پابندی تک

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.