- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
سَلۡ بَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ كَمۡ ءَاتَيۡنَٰهُم مِّنۡ ءَايَةِۭ بَيِّنَةٖۗ وَمَن يُبَدِّلۡ نِعۡمَةَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُ فَإِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ (211)
ترجمہ: آپ (علماء) بنی اسرائیل سے (ذرا) پوچھیے (توسہی) کہ ہم نے ان کو کتنی واضح دلیلیں دی تھیں۔ (3) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمت کو بدلتا ہے اس کے پاس پہنچنے کے بعد تو یقینا حق تعالیٰ سخت سزادیتے ہیں۔ (4)
3 - مثلا تورات ملی، چاہیے تھا کہ اس کو قبول کرتے مگر انکار کیا آخر طور گرانے کی دھمکی دی گئی اور مثلا حق تعالی کا کلام سنا چاہیے تھا کہ سر آنکھوں پر رکھتے مگر شبہات نکالے آخر بجلی سے ہلاک ہوئے اور مثلا دریا کو شگافتہ کر کے فرعون سے نجات دی گئی احسان مانتے مگر گوالہ پرستی شروع کردی سزائے قتل دی گئی اور مثلا من وسلوی نازل ہوا شکر کرنا چاہیے تھا بے حکمی کی وہ سڑنے لگا اور اس سے نفرت ظاہر کی تو وہ موقوف ہو گیا اور کھیتی کی مصیبت سر پر پڑی اور مثلا انبیاء کا سلسلہ ان میں جاری رہا غنیمت سمجھتے ان کو قتل کرنا شروع کر دیا انتزاع سلطنت کی سزا دی گئی۔ و علی ھذا بہت سے معاملات اس سورۃ بقرہ کے شروع میں بھی مذکور ہو چکے ہیں۔
4 ۔ یہ سزا کبھی دنیا میں بھی ہو جاتی ہے اور کبھی آخرت میں بھی ہوگی۔
زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَا وَيَسۡخَرُونَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْۘ وَٱلَّذِينَ ٱتَّقَوۡاْ فَوۡقَهُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِۗ وَٱللَّهُ يَرۡزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٖ (212)
ترجمہ: دنیوی معاش کفار کو آراستہ پیراستہ معلوم ہوتی ہے اور (اسی وجہ سے) وہ ان مسلمانوں سے تمسخر کرتے ہیں حالانکہ (یہ مسلمان) جو کفر و شرک سے بچتے ہیں ان (کافروں) سے اعلیٰ درجہ میں ہونگے قیامت کے روز اور روزی تو اللہ تعالیٰ جس کو چایتے ہیں بےاندازہ دیدیتے ہیں۔ (5)
5 ۔ پس اس کا مدار قسمت پر ہے نہ کہ کمال اور مقبولیت پر۔
كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةٗ وَٰحِدَةٗ فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّـۧنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِۚ وَمَا ٱخۡتَلَفَ فِيهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ ٱلۡبَيِّنَٰتُ بَغۡيَۢا بَيۡنَهُمۡۖ فَهَدَى ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَا ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ ٱلۡحَقِّ بِإِذۡنِهِۦۗ وَٱللَّهُ يَهۡدِي مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٰطٖ مُّسۡتَقِيمٍ (213)
ترجمہ: (ایک زمانہ میں) سب آدمی ایک ہی طریق کے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا جو کہ خوشی (کے وعدے) سناتے تھے اور ڈراتے تھے۔ اور ان کے ساتھ (آسمانی) کتابیں بھی ٹھیک طور پر نازل فرمائیں۔ اس غرض سے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں میں ان کے امور اختلافیہ (مذہبی) میں فیصلہ فرمائیں۔ (1) اور اس کتاب میں (یہ) اختلاف کسی نے نہیں کیا مگر صرف ان لوگوں نے جن کو (اولا) وہ (کتاب) ملی تھی بعد اس کے کہ ان کے پاس دلائل واضحہ پہنچ چکے تھے باہمی ضداضدی کی وجہ سے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (ہمیشہ) ایمان والوں کو وہ امرحق جس میں (مختلفین) اختلاف کیا کرتے تھے بفضلہ بتلادیا۔ اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اس کو راہ راست بتلادیتے ہیں۔
1 - اول دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام) مع اپنی بی بی کے تشریف لائے اور جو اولاد ہوتی گئی ان کو دین حق کی تعلیم فرماتے رہے اور وہ ان کی تعلیم پر عمل کرتے رہے ایک مدت اسی حالت میں گزر گئی پھر اختلاف طبائع سے اغراض میں اختلاف ہونا شروع ہوا حتی کہ ایک عرصہ کے بعد اعمال و عقائد میں اختلاف کی نوبت آگئی۔
أَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُمۖ مَّسَّتۡهُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٞ (214)
ترجمہ: کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ جنت میں (بےمشقت) جا داخل ہوگے حالانکہ تم کو ہنوزان (مسلمان) لوگوں کا سا کوئی (عجیب) واقعہ پیش نہیں آیا جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں۔ ان پر (مخالفین کے سبب) ایسی ایسی تنگی اور سختی واقع ہوئی اور (مصائب رہے) ان کو یہاں تک جنبشین ہوئیں کہ (اس زمانے کے) پیعمبر تک اور جو ان کے ہمراہ اہل ایمان تھے بول اٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد (موعود) کب ہوگی۔ یاد رکھو بیشک اللہ تعالیٰ کی امداد (بہت) نزدیک ہے۔ (2)
2 - انبیاء اور مومنین کا اس طرح کہنا نعوذ باللہ شک کی وجہ سے نہ تھا بلکہ وجہ یہ تھی کہ وقت امداد اور غلبہ کا مقابلہ مخالفین میں ان حضرات کو نہ بتلایا گیا ابہام وقت سے ان کو جلدی ہونے کا انتظار رہتا تھا جب انتظار سے تھک جاتے تب اس طرح عرض معروض کرنے لگتے جس کا حاصل دعا ہے الحاح کے ساتھ اور الحاح خلاف رضا و تسلیم کے نہیں ہے بلکہ جب الحاح کا پسندیدہ ہونا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثابت ہے تو الحاح عین رضاء حق سے رضا ہے البتہ خلاف رضا اور وہ دعا ہے جس کے قبول نہ ہونے سے دعا کرنے والا ناخوش ہو سع معاز اللہ اس کا انبیاء اور مومنین کاملین میں ثبوت ہے نہ احتمال۔
يَسۡـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَۖ قُلۡ مَآ أَنفَقۡتُم مِّنۡ خَيۡرٖ فَلِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِۗ وَمَا تَفۡعَلُواْ مِنۡ خَيۡرٖ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٞ (215)
ترجمہ: لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کیا کریں۔ آپ فرمادیجیے کہ جو کچھ مال تم کو صرف کرنا ہے سو ماں باپ کا حق ہے (3) اور قرابت داروں کا اور بے باپ کے بچوں کا اور محتاجوں کا اور مسافر کا اور جونسا نیک کام کروگے سو اللہ تعالیٰ کو اس کی خوب خبر ہے (وہ اس پر ثواب دیں گے)۔
3 ۔ ماں باپ کو زکوۃ اور دوسرے صدقات واجبہ دنیا درست نہیں اس آیت میں نفلی خیرات کا بیان ہے۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
سَلۡ بَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ كَمۡ ءَاتَيۡنَٰهُم مِّنۡ ءَايَةِۭ بَيِّنَةٖۗ وَمَن يُبَدِّلۡ نِعۡمَةَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُ فَإِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ (211)
ترجمہ: بنی اسرائیل سے پوچھو کیسی کھلی کھلی نشانیاں ہم نے اُنہیں دکھائی ہیں (اور پھر یہ بھی انہیں سے پوچھ لو کہ) اللہ کی نعمت پانے کے بعد جو قوم اس کو شقاوت سے بدلتی ہے اُسے اللہ کیسی سخت سزادیتا ہے۔ (229)
229- اس سوال کے لیے بنی اسرائیل کا انتخاب دو وجوہ سے کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ آثار قدیمہ کے بے زبان کھنڈروں کی بہ نسبت ایک جیتی جاگتی قوم زیادہ بہتر سامان عبرت و بصیرت ہے۔ دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل وہ قوم ہے، جس کو کتاب اور نبوت کی مشعل دے کر دنیا کی رہنمائی کے منصب پر مامور کیا گیا تھا، اور پھر اس نے دنیا پرستی، نفاق اور علم و عمل کی ضلالتوں میں مبتلا ہو کر اس نعمت سے اپنے آپ کو محروم کر لیا۔ لہٰذا جو گروہ اس قوم کے بعد امامت کے منصب پر مامور ہوا ہے، اس کو سب سے بہتر سبق اگر کسی کے انجام سے مل سکتا ہے، تو وہ یہی قوم ہے۔
زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَا وَيَسۡخَرُونَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْۘ وَٱلَّذِينَ ٱتَّقَوۡاْ فَوۡقَهُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِۗ وَٱللَّهُ يَرۡزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٖ (212)
ترجمہ: جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، اُن کے لیے دنیا کی زندگی بڑی محبوب و دل پسند بنا دی گئی ہے ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر قیامت کے روز پرہیز گار لوگ ہی اُن کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے رہا دنیا کا رزق، تو اللہ کو اختیار ہے، جسے چاہے بے حساب دے۔
كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةٗ وَٰحِدَةٗ فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّـۧنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِۚ وَمَا ٱخۡتَلَفَ فِيهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ ٱلۡبَيِّنَٰتُ بَغۡيَۢا بَيۡنَهُمۡۖ فَهَدَى ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَا ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ ٱلۡحَقِّ بِإِذۡنِهِۦۗ وَٱللَّهُ يَهۡدِي مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٰطٖ مُّسۡتَقِيمٍ (213)
ترجمہ: ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور اُن کے ساتھ کتاب بر حق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا نہیں،) اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا عمل دیا چکا تھا اُنہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس کے لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے (230)۔۔۔۔ پس جو لوگ انبیا پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اُس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اللہ جسے چاہتا ہے، راہ راست دکھا دیتا ہے۔
230- ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بنیاد پر ” مذہب “ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پوری روشنی میں ہوا ہے۔ اللہ تعالی نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے۔ اس کے بعد ایک مدت تک نسل آدم راہ راست پر قائم رہی اور ایک امت بنی رہی۔ پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے۔ اسی خرابی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالی نے انبیائے کرام کو مبعوث کرنا شروع کیا۔ یہ انبیا اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی امت بنالے۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہ حق کو واضح کر کے انہیں پھر سے ایک امت بنادیں۔
أَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُمۖ مَّسَّتۡهُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٞ (214)
ترجمہ: پھر کیا (231) تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کارسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔
231- اوپر کی آیت اور اس آیت کے درمیان ایک پوری داستان کی داستان ہے، جسے ذکر کیے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ یہ آیت خود اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور قرآن کی مکی سورتوں میں ( جو سورۃ بقرہ سے پہلے نازل ہوئی تھیں) یہ داستان تفصیل کے ساتھ بیان بھی ہو چکی ہے۔ انبیا جب کبھی دنیا میں آئے، انہیں اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو خدا کے باغی و سرکش بندوں سے سخت مقابلہ پیش آیا اور انھوں نے اپنی جانیں جو کھوں میں ڈال کر باطل طریقوں کے مقابلہ میں دین حق کو قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ اس دین کا راستہ کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہا کہ امنا کہا اور چین سے لیٹ گئے۔ اس " ا منا “ کا قدرتی تقاضا ہر زمانے میں یہ رہا ہے کہ آدمی جس دین پر ایمان لایا ہے، اسے قائم کرنے کی کوشش کرے اور جو طاغوت اس کے راستے میں مزاحم ہو، اس کا زور توڑنے میں اپنے جسم و جان کی ساری قوتیں صرف کر دے۔
يَسۡـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَۖ قُلۡ مَآ أَنفَقۡتُم مِّنۡ خَيۡرٖ فَلِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِۗ وَمَا تَفۡعَلُواْ مِنۡ خَيۡرٖ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٞ (215)
ترجمہ: لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا۔
- کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
سَلۡ بَنِيٓ إِسۡرَٰٓءِيلَ كَمۡ ءَاتَيۡنَٰهُم مِّنۡ ءَايَةِۭ بَيِّنَةٖۗ وَمَن يُبَدِّلۡ نِعۡمَةَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُ فَإِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ (211)
ترجمہ: بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے کتنی روشن نشانیاں انہیں دیں اور جو اللہ کی آئی ہوئی نعمت کو بدل دے تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے،
زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَا وَيَسۡخَرُونَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْۘ وَٱلَّذِينَ ٱتَّقَوۡاْ فَوۡقَهُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِۗ وَٱللَّهُ يَرۡزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٖ (212)
ترجمہ: کافروں کی نگاہ میں دنیا کی زندگی آراستہ کی گئی اور مسلمانوں سے ہنستے ہیں اور ڈر والے ان سے اوپر ہوں گے قیامت کے دن اور خدا جسے چاہے بے گنتی دے،
كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةٗ وَٰحِدَةٗ فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّـۧنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِۚ وَمَا ٱخۡتَلَفَ فِيهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ ٱلۡبَيِّنَٰتُ بَغۡيَۢا بَيۡنَهُمۡۖ فَهَدَى ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَا ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ ٱلۡحَقِّ بِإِذۡنِهِۦۗ وَٱللَّهُ يَهۡدِي مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٰطٖ مُّسۡتَقِيمٍ (213)
ترجمہ: لوگ ایک دین پر تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کر دے اور کتاب میں اختلاف اُنہیں نے ڈالا جن کو دی گئی تھی بعد اس کے کہ ان کے پاس روشن حکم آ چکے آپس میں سرکشی سے تو اللہ نے ایمان والوں کو وہ حق بات سوجھا دی جس میں جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے ، اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے،
أَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُمۖ مَّسَّتۡهُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٞ (214)
ترجمہ: کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر اگلوں کی سی روداد (حالت) نہ آئی پہنچی انہیں سختی اور شدت اور ہلا ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ کہہ اٹھا رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کب آئے گی اللہ کی مدد سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے،
يَسۡـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَۖ قُلۡ مَآ أَنفَقۡتُم مِّنۡ خَيۡرٖ فَلِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ وَٱلۡيَتَٰمَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِۗ وَمَا تَفۡعَلُواْ مِنۡ خَيۡرٖ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٞ (215)
ترجمہ: تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ، تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو و ہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لئے ہے اور جو بھلائی کرو بیشک اللہ اسے جانتا ہے
یہ بھی پڑھیں: فرمان الٰہی: 'اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ' قرآن کی پانچ آیتوں کا یومیہ مطالعہ