ETV Bharat / bharat

فرمان الٰہی: 'اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ' قرآن کی پانچ آیتوں کا یومیہ مطالعہ - INTERPRETATION OF QURAN

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 17, 2024, 7:03 AM IST

فرمان الٰہی میں آج ہم سورہ بقرۃ کی مزید پانچ آیتوں (206-210) کو مختلف تفسیروں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

قرآن کا مطالعہ
قرآن کا مطالعہ (Photo: ETV Bharat)
  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا قِيلَ لَهُ ٱتَّقِ ٱللَّهَ أَخَذَتۡهُ ٱلۡعِزَّةُ بِٱلۡإِثۡمِۚ فَحَسۡبُهُۥ جَهَنَّمُۖ وَلَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ (206)

ترجمہ: اور جب اس سے کوئی کہتا ہے کہ خدا کا خوف کر تو نخوت اس کو اس گناہ پر (دونا) آمادہ کردیتی ہے سو ایسے شخص کی کافی سزا جہنم ہے اور وہ بری ہی آرام گاہ ہے۔

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشۡرِي نَفۡسَهُ ٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلۡعِبَادِ (207)

ترجمہ: اور بعضا آدمی ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں اپنی جان تک صرف کر ڈالتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کے حال پر نہایت مہربان ہیں۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِي ٱلسِّلۡمِ كَآفَّةٗ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٞ (208)

ترجمہ: اے ایمان والواسلام میں پورے پورے داخل ہو (فاسدخیالات میں پڑ کر) شیطان کے قدم بقدم مت چلو واقعی وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

فَإِن زَلَلۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡكُمُ ٱلۡبَيِّنَٰتُ فَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (209)

ترجمہ: پھر اگر تم بعد اس کے کہ تم کو واضح دلیلیں پہنچ چکی ہیں (صراط مستقیم سے) لغزش کرنے لگو تو یقین کر رکھو کہ حق تعالیٰ (بڑے) زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔

هَلۡ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن يَأۡتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِي ظُلَلٖ مِّنَ ٱلۡغَمَامِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَقُضِيَ ٱلۡأَمۡرُۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ (210)

ترجمہ: یہ (کجراہ) لوگ صرف اس امر کے منتظر (معلوم ہوتے) ہیں کہ حق تعالیٰ اور فرشتے بادل کے سائبانوں میں ان کے پاس (سزادینے کے لیے) آویں اور سارا قصہ ہی ختم ہوجاوے اور یہ سارے مقدمات اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کیے جاویں گے۔ (2)

2 - روح المعانی میں بسند ابن مردویه بروایت ابن مسعود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث نقل کی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالی تمام اولین و آخرین کو جمع فرمائیں گے اور سب منتظر حساب و کتاب کے ہوں گے اللہ تعالیٰ ابر کے سائبانوں میں عرش پر تجلی فرمائیں گے اور ابن عباس کی روایت نقل کی ہے کہ ان سائبانوں کے گرد ملائکہ ہوں گے سو آیت میں اس قصہ کی طرف اشارہ ہے مطلب یہ ہوا کہ قیامت کے منتظر ہیں پھر اس وقت کیا ہو سکتا ہے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا قِيلَ لَهُ ٱتَّقِ ٱللَّهَ أَخَذَتۡهُ ٱلۡعِزَّةُ بِٱلۡإِثۡمِۚ فَحَسۡبُهُۥ جَهَنَّمُۖ وَلَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ (206)

ترجمہ: اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشۡرِي نَفۡسَهُ ٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلۡعِبَادِ (207)

ترجمہ: دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے، جو رضا ئے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِي ٱلسِّلۡمِ كَآفَّةٗ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٞ (208)

ترجمہ: اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ (226) اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

226- یعنی کسی استثنا کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ۔ تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے، تمہارے معاملات، اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مستثنیٰ کر لو۔

فَإِن زَلَلۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡكُمُ ٱلۡبَيِّنَٰتُ فَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (209)

ترجمہ: جو صاف صاف ہدایات تمہارے پا س آ چکی ہیں، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغز ش کھائی، تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ (227)

227- یعنی وہ زبردست طاقت بھی رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اپنے مجرموں کو سزا کس طرح دے۔
هَلۡ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن يَأۡتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِي ظُلَلٖ مِّنَ ٱلۡغَمَامِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَقُضِيَ ٱلۡأَمۡرُۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ (210)
ترجمہ: (اِن ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں، تو) کیا اب وہ اِس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے سا تھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟ (228)۔۔۔ آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں۔
228- یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ ان سے ایک اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائش صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت میں، کتابوں کی تنزیل میں، حتی کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کر دیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو، جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آجائیں گے، کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکا دینے کی ساری قدر و قیمت اسی وقت تک ہے، جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تخت جلال پر متمکن ہے، اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے، اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں، اور یہ تمہاری ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے، تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے ؟ اس وقت تو کوئی کٹے سے کٹا کافر اور بدتر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جرات نہیں کر سکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت بس اسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی۔ جب وہ ساعت آگئی، تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش، بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا قِيلَ لَهُ ٱتَّقِ ٱللَّهَ أَخَذَتۡهُ ٱلۡعِزَّةُ بِٱلۡإِثۡمِۚ فَحَسۡبُهُۥ جَهَنَّمُۖ وَلَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ (206)

ترجمہ: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے اور ضد چڑھے گناہ کی ایسے کو دوزخ کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا بچھونا ہے،

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشۡرِي نَفۡسَهُ ٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلۡعِبَادِ (207)

ترجمہ: اور کوئی آدمی اپنی جان بیچتا ہے اللہ کی مرضی چاہنے میں اور اللہ بندوں پر مہربان ہے،

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِي ٱلسِّلۡمِ كَآفَّةٗ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٞ (208)

ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پورے داخل ہو اور شیطان کے قدموں پر نہ چلے بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،

فَإِن زَلَلۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡكُمُ ٱلۡبَيِّنَٰتُ فَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (209)

ترجمہ: اور اگر اس کے بعد بھی بچلو کہ تمہارے پاس روشن حکم آ چکے تو جان لو کہ اللہ زبردست حکمت والا ہے،

هَلۡ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن يَأۡتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِي ظُلَلٖ مِّنَ ٱلۡغَمَامِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَقُضِيَ ٱلۡأَمۡرُۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ (210)

ترجمہ: کاہے کے انتظار میں ہیں مگر یہی کہ اللہ کا عذاب آئے چھائے ہوئے بادلوں میں اور فرشتے اتریں اور کام ہو چکے اور سب کاموں کی رجوع اللہ کی طرف ہے،

مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: ایسے لوگوں کا ذکر جو باتوں میں بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن حق کے دشمن ہوتے ہیں، قرآن کی پانچ آیتوں کا یومیہ مطالعہ

  • بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا قِيلَ لَهُ ٱتَّقِ ٱللَّهَ أَخَذَتۡهُ ٱلۡعِزَّةُ بِٱلۡإِثۡمِۚ فَحَسۡبُهُۥ جَهَنَّمُۖ وَلَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ (206)

ترجمہ: اور جب اس سے کوئی کہتا ہے کہ خدا کا خوف کر تو نخوت اس کو اس گناہ پر (دونا) آمادہ کردیتی ہے سو ایسے شخص کی کافی سزا جہنم ہے اور وہ بری ہی آرام گاہ ہے۔

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشۡرِي نَفۡسَهُ ٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلۡعِبَادِ (207)

ترجمہ: اور بعضا آدمی ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں اپنی جان تک صرف کر ڈالتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کے حال پر نہایت مہربان ہیں۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِي ٱلسِّلۡمِ كَآفَّةٗ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٞ (208)

ترجمہ: اے ایمان والواسلام میں پورے پورے داخل ہو (فاسدخیالات میں پڑ کر) شیطان کے قدم بقدم مت چلو واقعی وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

فَإِن زَلَلۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡكُمُ ٱلۡبَيِّنَٰتُ فَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (209)

ترجمہ: پھر اگر تم بعد اس کے کہ تم کو واضح دلیلیں پہنچ چکی ہیں (صراط مستقیم سے) لغزش کرنے لگو تو یقین کر رکھو کہ حق تعالیٰ (بڑے) زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔

هَلۡ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن يَأۡتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِي ظُلَلٖ مِّنَ ٱلۡغَمَامِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَقُضِيَ ٱلۡأَمۡرُۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ (210)

ترجمہ: یہ (کجراہ) لوگ صرف اس امر کے منتظر (معلوم ہوتے) ہیں کہ حق تعالیٰ اور فرشتے بادل کے سائبانوں میں ان کے پاس (سزادینے کے لیے) آویں اور سارا قصہ ہی ختم ہوجاوے اور یہ سارے مقدمات اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کیے جاویں گے۔ (2)

2 - روح المعانی میں بسند ابن مردویه بروایت ابن مسعود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث نقل کی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالی تمام اولین و آخرین کو جمع فرمائیں گے اور سب منتظر حساب و کتاب کے ہوں گے اللہ تعالیٰ ابر کے سائبانوں میں عرش پر تجلی فرمائیں گے اور ابن عباس کی روایت نقل کی ہے کہ ان سائبانوں کے گرد ملائکہ ہوں گے سو آیت میں اس قصہ کی طرف اشارہ ہے مطلب یہ ہوا کہ قیامت کے منتظر ہیں پھر اس وقت کیا ہو سکتا ہے۔

  • تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا قِيلَ لَهُ ٱتَّقِ ٱللَّهَ أَخَذَتۡهُ ٱلۡعِزَّةُ بِٱلۡإِثۡمِۚ فَحَسۡبُهُۥ جَهَنَّمُۖ وَلَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ (206)

ترجمہ: اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشۡرِي نَفۡسَهُ ٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلۡعِبَادِ (207)

ترجمہ: دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے، جو رضا ئے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِي ٱلسِّلۡمِ كَآفَّةٗ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٞ (208)

ترجمہ: اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ (226) اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

226- یعنی کسی استثنا کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ۔ تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے، تمہارے معاملات، اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مستثنیٰ کر لو۔

فَإِن زَلَلۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡكُمُ ٱلۡبَيِّنَٰتُ فَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (209)

ترجمہ: جو صاف صاف ہدایات تمہارے پا س آ چکی ہیں، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغز ش کھائی، تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ (227)

227- یعنی وہ زبردست طاقت بھی رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اپنے مجرموں کو سزا کس طرح دے۔
هَلۡ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن يَأۡتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِي ظُلَلٖ مِّنَ ٱلۡغَمَامِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَقُضِيَ ٱلۡأَمۡرُۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ (210)
ترجمہ: (اِن ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں، تو) کیا اب وہ اِس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے سا تھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟ (228)۔۔۔ آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں۔
228- یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ ان سے ایک اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائش صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت میں، کتابوں کی تنزیل میں، حتی کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کر دیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو، جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آجائیں گے، کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکا دینے کی ساری قدر و قیمت اسی وقت تک ہے، جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تخت جلال پر متمکن ہے، اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے، اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں، اور یہ تمہاری ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے، تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے ؟ اس وقت تو کوئی کٹے سے کٹا کافر اور بدتر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جرات نہیں کر سکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت بس اسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی۔ جب وہ ساعت آگئی، تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش، بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے۔

  • کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)

بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

وَإِذَا قِيلَ لَهُ ٱتَّقِ ٱللَّهَ أَخَذَتۡهُ ٱلۡعِزَّةُ بِٱلۡإِثۡمِۚ فَحَسۡبُهُۥ جَهَنَّمُۖ وَلَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ (206)

ترجمہ: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے اور ضد چڑھے گناہ کی ایسے کو دوزخ کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا بچھونا ہے،

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشۡرِي نَفۡسَهُ ٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلۡعِبَادِ (207)

ترجمہ: اور کوئی آدمی اپنی جان بیچتا ہے اللہ کی مرضی چاہنے میں اور اللہ بندوں پر مہربان ہے،

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِي ٱلسِّلۡمِ كَآفَّةٗ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٞ (208)

ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پورے داخل ہو اور شیطان کے قدموں پر نہ چلے بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،

فَإِن زَلَلۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡكُمُ ٱلۡبَيِّنَٰتُ فَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (209)

ترجمہ: اور اگر اس کے بعد بھی بچلو کہ تمہارے پاس روشن حکم آ چکے تو جان لو کہ اللہ زبردست حکمت والا ہے،

هَلۡ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن يَأۡتِيَهُمُ ٱللَّهُ فِي ظُلَلٖ مِّنَ ٱلۡغَمَامِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَقُضِيَ ٱلۡأَمۡرُۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ (210)

ترجمہ: کاہے کے انتظار میں ہیں مگر یہی کہ اللہ کا عذاب آئے چھائے ہوئے بادلوں میں اور فرشتے اتریں اور کام ہو چکے اور سب کاموں کی رجوع اللہ کی طرف ہے،

مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: ایسے لوگوں کا ذکر جو باتوں میں بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن حق کے دشمن ہوتے ہیں، قرآن کی پانچ آیتوں کا یومیہ مطالعہ

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.