- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
مَّن ذَا ٱلَّذِي يُقۡرِضُ ٱللَّهَ قَرۡضًا حَسَنٗا فَيُضَٰعِفَهُۥ لَهُۥٓ أَضۡعَافٗا كَثِيرَةٗۚ وَٱللَّهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ (245)
ترجمہ: کون شخص ہے (ایسا) جو اللہ تعالی کو قرض دے اچھے طور پر قرض دینا پھر اللہ تعالی اس (کے ثواب) کو بڑھا کر بہت سے ہیں اور فراخی کرتے ہیں حصے کر دیوے اور اللہ کمی کرتے اور تم اسی کی طرف (بعد مرنے کے) لیجائے جاؤ گے۔ ( 1 )
1 - قرض مجازا کہہ دیا ورنہ سب خدا ہی کی ملک ہے مطلب یہ ہے کہ جیسے قرض کا عوض ضرور ہی دیا جاتا ہے اسی طرح تمہارے انفاق کا عوض ضرور ملے گا اور بڑھانے کا بیان ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک خرما اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ وہ احد پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقۡنَٰكُم مِّن قَبۡلِ أَن يَأۡتِيَ يَوۡمٞ لَّا بَيۡعٞ فِيهِ وَلَا خُلَّةٞ وَلَا شَفَٰعَةٞۗ وَٱلۡكَٰفِرُونَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ (254)
ترجمہ: اے ایمان والو خرچ کر لو ان چیزوں سے جو ہم نے تم کو دی ہیں قبل اس کے کہ وہ دن (قیامت کا) آجاوے جس میں نہ تو خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی ہوگی اور (بلا ازن الی) کوئی سفارش ہوگی اور کافر ہی لوگ ظلم کرتے ہیں (تو تم ایسے مت بنو) 2
2- مطلب یہ ہے کہ جو عمل خیر دنیا میں فوت ہو جائے گا پھر وہاں اس کا کچھ تدارک قدرت سے خارج ہو جائے گا چناچہ تدارک کے طریقوں تو خود نہ ہوں گے جیسے دوستی، بعض اختیاری نہ ہوں گے جیسے شفاعت اور مقصود اس سے قیامت کے دن ثمرات اعمال کر کے اکتساب پر قادر نہ ہونے کا یاد دلانا ہے۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
مَّن ذَا ٱلَّذِي يُقۡرِضُ ٱللَّهَ قَرۡضًا حَسَنٗا فَيُضَٰعِفَهُۥ لَهُۥٓ أَضۡعَافٗا كَثِيرَةٗۚ وَٱللَّهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ (245)
ترجمہ: تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے (267) تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔
267- ” قرض حسن “ کا لفظی ترجمہ " اچھا قرض “ ہے اور اس سے مراد ایسا قرض ہے، جو خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ کسی کو دیا جائے۔ اس طرح جو مال راہ خدا میں خرچ کیا جائے، اسے اللہ تعالی اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کر دوں گا، بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ دوں گا۔ البتہ شرط یہ ہے کہ وہ ہو قرض حسن، یعنی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے نہ دیا جائے، بلکہ محض اللہ کی خاطر ان کاموں میں صرف کیا جائے، جن کو وہ پسند کرتا ہے۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقۡنَٰكُم مِّن قَبۡلِ أَن يَأۡتِيَ يَوۡمٞ لَّا بَيۡعٞ فِيهِ وَلَا خُلَّةٞ وَلَا شَفَٰعَةٞۗ وَٱلۡكَٰفِرُونَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ (254)
ترجمہ: اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو (276) قبل اس کے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں، جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔ (277)
276- مراد راہ خدا میں خرچ کرنا ہے۔ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی ہے، انہیں اس مقصد کے لیے، جس پر وہ ایمان لائے ہیں، مالی قربانیاں برداشت کرنی چاہیں۔
277- یہاں کفر کی روش اختیار کرنے والوں سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو خدا کے حکم کی اطاعت سے انکار کریں اور اپنے مال کو اس کی خوشنودی سے عزیز تر رکھیں۔ یا وہ لوگ جو اس دن پر اعتقاد نہ رکھتے ہوں جس کے آنے کا خوف دلایا گیا ہے۔ یا پھر وہ لوگ جو اس خیال خام میں مبتلا ہوں کہ آخرت میں انہیں کسی نہ کسی طرح نجات خرید لینے کا اور دوستی و سفارش سے کام نکال لے جانے کا موقع حاصل ہو ہی جائے گا۔
- کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
مَّن ذَا ٱلَّذِي يُقۡرِضُ ٱللَّهَ قَرۡضًا حَسَنٗا فَيُضَٰعِفَهُۥ لَهُۥٓ أَضۡعَافٗا كَثِيرَةٗۚ وَٱللَّهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ (245)
ترجمہ: ہے کوئی جو اللہ کو قرض حسن دے تو اللہ اس کے لئے بہت گُنا بڑھا دے اور اللہ تنگی اور کشائش کرتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پھر جانا،
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقۡنَٰكُم مِّن قَبۡلِ أَن يَأۡتِيَ يَوۡمٞ لَّا بَيۡعٞ فِيهِ وَلَا خُلَّةٞ وَلَا شَفَٰعَةٞۗ وَٱلۡكَٰفِرُونَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ (254)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خرید و فروخت ہے اور نہ کافروں کے لئے دوستی اور نہ شفاعت، اور کافر خود ہی ظالم ہیں