لکھنؤ: تبدیلیٔ مذہب کیس میں این آئی اے اے ٹی ایس عدالت نے مولانا عمر گوتم اور کلیم صدیقی سمیت مجرموں کو سزا سنائی ہے۔ منگل کو عدالت نے انھیں غیر قانونی تبدیلی مذہب سمیت دیگر دفعات کے تحت مجرم قرار دیا تھا۔ این آئی اے اے ٹی ایس کی خصوصی عدالت کے جج وویکانند شرن ترپاٹھی نے بدھ کو سماعت کرتے ہوئے غیر قانونی تبدیلی کے معاملے میں 12 کو عمر قید اور 4 قصورواروں کو 10 سال قید کی سزا سنائی۔ اتر پردیش میں تبدیلی مذہب قانون کے نفاذ کے بعد پہلی بار مجرموں کو سزا دی گئی ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ 2021 میں فتح پور کی ایک ٹیچر کلپنا سنگھ نے مولانا عمر گوتم کے خلاف بچوں کا غیر قانونی طور پر مذہب تبدیل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ جس کے بعد اے ٹی ایس نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے ملک بھر سے گرفتاریاں کیں، جس میں عمر گوتم بھی شامل تھے۔
این آئی اے اے ٹی ایس کی عدالت میں سیکشن 417، 120 بی، 153 بی، 295 اے، 121 اے، 123 اور سیکشن 3، 4، اور 5 کے تحت 14 ملزمان کو مجرم قرار دیا تھا۔ تمام ملزمین کو این آئی اے اے ٹی ایس کورٹ کے جج وویکانند شرن ترپاٹھی نے آج سزا سنائی۔
یو پی اے ٹی ایس تبدیلیٔ مذہب مقدمہ میں لکھنؤ سیشن عدالت نے مولانا کلیم صدیقی سمیت تمام ملزمین کو قصور وار ٹہرایا تھا۔ مولانا سمیت تمام مجرمین کو تحویل میں لے کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ قانونی ماہرین نے جن دفعات کے تحت عدالت نے ان سب کو قصور وار پایا اس کے مطابق ملزمین کو زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا اور کم سے کم دس سال کی سزا کا اندازہ لگایا تھا۔ آج عدالت نے دونوں فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد سزا سنائی۔
مولانا کلیم صدیقی کا تعلق مظفر نگر کے گاؤں پھلت سے ہے۔ ان کے زیر اہتمام شاہ ولی اللہ ٹرسٹ چلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا کلیم صدیقی، گلوبل پیس فاؤنڈیشن کے بھی چیئرمین ہیں۔ سمتبر 2021 کو یو پی اے ٹی ایس نے مولانا کلیم صدیقی اور ان کے دیگر تین ساتھیوں کو میرٹھ سے گرفتار کیا تھا۔ اے ٹی ایس نے الزام لگایا تھا کہ مولانا کلیم صدیقی ایسے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جو ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرنے میں ملوث ہیں۔ مبینہ طور پر مولانا کلیم صدیقی پر مذہب تبدیل کرانے کے علاوہ غیر ممالک سے اس کام کے لیے فنڈ جمع کرنے کا بھی الزام ہے۔ عمر گوتم اور مفتی قاضی کو بھی اسی معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: