حیدرآباد: بھارت کی سیاست اپنا رنگ تبدیل کر رہی ہے۔ ملک میں اکثریتی قوم پرستی ہندوستانی سیاست کو نئی شکل میں ڈھال رہی ہے۔ اس کا سیدھا اثر اقلیتوں پر پڑتا دکھائی دے رہا ہے، جہاں حکومت کی تشکیل میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔ حال میں اختتام پذیر ہوئے لوک سبھا انتخابات میں کافی جوش وجذبہ اور جنون کی حد دیکھی گئی جو ملک کی اکثریتی آبادی کی جانب سے ہندو قوم پرستی کے رنگوں کو قبول کرنے کا ایک کڑوا سچ ہے۔ حالانکہ سابقہ حکومت نے مسلمانوں کی نمائندگی کے مکمل خاتمے کا جو زخم دیا تھا وہ بھرا بھی نہیں تھا کہ بھارت کے خیال پر ایک خطرناک حملہ کیا گیا۔
- ملک کی سیاست میں مسلمانوں کی سکڑتی حصہ داری:
انتخابات اور سیاست سے مسلمانوں کو باہر کا راستہ دکھانے کا فارمولہ ہر سطح پر ہر جگہ پھیلنے لگا ہے۔ ملک لوک سبھا انتخابات 2024 کے نتائج کا انتظار کر رہا ہے، تاہم انتخابی میدان میں سماج کے ایک طبقے (مسلم) کے لیے کم ہوتی جگہ تشویش کا باعث ہے۔ اگر ہم 2019 انتخابات کے اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ 115 مسلمانوں نے مختلف سیاسی پارٹیوں سے چناوی میدان میں قسمت آزمائی۔ لیکن یہی تعداد 2024 میں گھٹ کر 78 ہو گئی۔ اس کی واحد وجہ یہ نکل کر سامنے آئی کہ سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو صرف ان نشستوں سے ٹکٹ دیا جہاں مسلم اکثریت میں ہیں۔ ان پارٹیوں نے دیگر نشستوں سے کسی مسلم امیدوار کو انتخابی میدان میں اتارنے سے گریز کیا جو موجودہ سیاسی ماحول کے بدلنے کی گواہی دے رہا ہے۔ یہ ہمارے سیاسی نظام کی بد قسمتی ہے کہ یہاں ایک مسلم امیدوار کو صرف اس کے عقیدے کی وجہ سے، اُس کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
- بی جے پی اور کانگریس سمیت دیگر پارٹیوں نے مسلمانوں سے کنارہ کیا:
بی جے پی کی این ڈی اے حکومت نے گزشتہ سال پی ایم مودی کی طرف سے پسماندہ مسلمانوں کے حقوق کے لیے شور مچانے کے باوجود کیرالہ کے ملاپورم سے ایک مسلم امیدوار عبدالسلام کو ٹکٹ دیا۔ وہیں، ملک کی دیگر ریاستوں میں جیسے پنجاب سے تمل ناڈو، گجرات سے ناگالینڈ تک، بی جے پی نے اپنے انتخابی حساب کتاب میں مسلمانوں اپنا ووٹ تسلیم ہی نہیں کیا اور انھیں سرپلس سمجھا۔ کانگریس نے بھی بی جے پی کی دیکھا دیکھی پورا نہیں تو کم ہی صحیح اس فارمولے پر عمل کیا یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے نشان پر چناو لڑنے والے مسلم امیدواروں کی تعداد 2019 میں 34 تھی اب 2024 میں 19 ہو گئی۔ کانگریس نے حد تو یہ کر دی کہ اسے ممبئی میں مسلم امیدوار کا جیتنا ممکن ہی نظر نہیں آیا اور ممبئی سے کانگریس نے ایک بھی مسلم امیدوار کو چناوی میدان میں نہیں اتارا، جس کے خلاف محمد عارف نسیم خان نے آواز اٹھائی اور ایک سچ بیان کر دیا جو کانگریس پر صادق آتا ہے۔ انھوں نے کہا، کانگریس مسلم ووٹ تو چاہتی ہے، مسلم امیدوار نہیں۔ عارف نسلم خان کا یہ بیان اقلیت نواز ہونے کا دعویٰ کرنے والی دیگر پارٹیوں کے لیے بھی ہو سکتا تھا۔ سماج وادی پارٹی کو ایم وائے (مسلمان اور یادو) کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس پارٹی نے انڈیا اتحاد میں رہتے ہوئے اتر پردیش کی 62 سیٹوں پر انتخاب لڑا جس میں صرف چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیا وہ بھی ایسی نشستوں سے جہاں مسلم آبادی کم ازکم 19 فیصد ہے۔ اسی طرح بہار میں لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی جو اقلیت نواز مانی جاتی ہے صرف دو مسلم امیدواروں کو چناوی میدان میں اتارا۔ وہیں کانگریس نے کٹیہار اور کشن گنج سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا۔
- گجرات اور راجستھان میں بی جے پی اور کانگریس کا ایک بھی مسلم امیدوار انتخابی میدان میں نہیں:
سب سے برا حال گجرات کا رہا۔ یہاں تو سیاسی پارٹیوں نے ایسا محسوس کرایا جیسے گجرات میں مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ گجرات کی کسی سیٹ سے جیت درج کر سکتے ہیں۔ گجرات میں کانگریس اور بی جے پی دونوں نے کسی مسلم امیدوار کو چناو لڑنے کے قابل نہیں سمجھا۔ راجستھان میں دونوں پارٹیوں نے گجرات کی کہانی دہرائی۔ بنگال میں، ٹی ایم سی سربراہ ممتا بنرجی کی جانب سے اقلیتی حقوق کے مضبوط دفاع کے باوجود، ریاست کی 42 نشستوں میں سے صرف چھ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا۔ یہاں تو مسلم آبادی کے فیصد کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جو کہ 27 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ جب 4 جون کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا تو مسلم کمیونٹی ممکنہ طور پر اپنے سب سے کم ممبران پارلیمنٹ کو لوک سبھا میں بھیجنے کے تاریک امکان کو دیکھ رہی ہو گی۔
- لوک سبھا میں مسلم نمائندوں کا سنہری دور:
1980 کی دہائی کے اوائل کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اسے سیاست میں مسلمانوں کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔ 1980 میں 49 مسلم ارکان پارلیمان لوک سبھا گئے تھے اور 1984 میں 46 مسلم ایم پی لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔
1980 میں بنی بی جے پی کے 1984 میں صرف دو ایم پی تھے۔ لیکن اس کی مقبولیت اقلیتوں کے لیے صحیح ثابت نہیں ہوئی۔ 2014 میں صرف 23 ممبران پارلیمنٹ لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے اور 2019 میں اس میں تین کا اضافہ ہوا تھا۔ مسلم ایم پی کو بتدریج خاتمے کے امکانات کا سامنا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد ہے لیکن ملک میں ہوئے پہلے پارلیمانی انتخابات سے اب تک صرف چھ فیصد مسلم ارکان پارلیمان ہی لوک سبھا پہنچے ہیں۔
- مسلم ووٹ کی اہمیت کو ختم کرنے کی سازش رچی گئی:
تعجب اس بات کا ہے کہ ان انتخابات میں مسلمان امیدوار کے طور پر تو نظر نہیں آئے لیکن ان کی موجودگی کو سیاسی بیان بازیوں میں زندہ رکھا گیا۔ وزیراعظم مودی نے ملک کے 100 کروڑ سے زائد آبادی کے دلوں میں ملک کے 25 کروڑ مسلم آبادی کا ڈر برقرار رکھنے کی قیادت کی۔ مسلمانوں کو درانداز اور کانگریس کا قریبی بتایا گیا۔ کہا گیا کہ کانگریس اکثریتی طبقہ کی مال ودولت کو مسلمانوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ اگر کانگریس صدر ملیکارجن کھرگے کے شیئر کردہ اعداد و شمار پر یقین کیا جائے تو مودی نے اپنی تقریروں میں 421 بار مندر-مسجد-مسلم کی اصطلاح کا استعمال کیا۔ ہندوتوا پر مودی کے جارحانہ رویہ نے دوسری پارٹیوں کے لیے ایک معیار قائم کر دیا ہے۔ ایک دور تھا جب مسلم مسلم ووٹ بینک کی سیاست کہا جاتا تھا لیکن اب مسلمانوں کے ووٹ کی اہمیت کو ہی ختم کرنے کی سازش رچی گئی۔ سیاسی تنہائی کو دور کرنے میں اب کسی پارٹی کو دلچسپی نہیں رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: