باغپت: اتر پردیش کے باغپت کے برناوا میں تعمیر کردہ لکشاگرہ کی زمین کو لے کر گزشتہ 53 سالوں سے تنازعہ چل رہا تھا۔ اس معاملہ میں عدالت میں ہندو اور مسلم فریق کی طرف سے مقدمہ چل رہا تھا۔ پیر کو عدالت نے اس معاملہ میں اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے یہاں بنائے گئے لکشا گرہ اور مزار کے مالکانہ حقوق ہندوؤں کو دے دیے ہیں۔ یہ مقدمہ 1970 میں میرٹھ کی عدالت میں دائر کیا گیا تھا۔ اس کی سماعت باغپت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ہو رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:
گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں رات میں ہی پوجا شروع
53 سال سے مقدمہ چل رہا تھا: اس معاملہ میں مسلم فریق نے عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔ اس اپیل میں انہوں نے مدعا علیہ کرشنا دت مہاراج کو باہر کا شخص قرار دیا تھا۔ مسلم فریق نے کہا کہ کرشنا دت مہاراج مسلم قبرستان کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ یہاں ہندوؤں کے لیے بھی تیرتھ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہندو فریق کی جانب سے ثبوت پیش کرنے والے کرشنا دت مہاراج اور مسلم فریق کی جانب سے مقدمہ دائر کرنے والے مقیم خان دونوں کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کی جگہ دوسرے لوگ عدالت میں وکالت کر رہے تھے۔ مسلم فریق نے دعویٰ کیا کہ وہاں شیخ بدرالدین کا مقبرہ بھی تھا جسے ہٹا دیا گیا تھا۔
108 بیگھہ اراضی پر تنازعہ: ہندو فریق کے وکیل رنویر سنگھ تومر نے کہا کہ لکشا گرہ اور مزار-قبرستان تنازعہ تقریباً 108 بیگھہ اراضی کے مالکانہ حقوق پر تھا۔ پیر کو عدالت نے کہا کہ اس زمین کی ملکیت مکمل طور پر ہندو فریق کی ہوگی۔ پانڈو دور کی ایک سرنگ بھی یہاں موجود ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پانڈو اس سرنگ کے ذریعہ لکشاگرہ سے فرار ہوئے تھے۔ اس معاملہ میں مورخین کی رائے بھی لی گئی۔ مورخ امیت رائے نے کہا تھا کہ اس زمین کی کھدائی کے دوران ہزاروں سال پرانے شواہد ملے ہیں۔ ان تمام شواہد کا تعلق ہندو تہذیب سے ہے۔