حیدرآباد: 25 جون 1975: ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا، جس میں پریس پر سخت سنسرشپ شامل تھی۔ 'ایناڈو' کے بانی راموجی راؤ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اخبارات پر عائد سنسر شپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
- 50 سال کی خدمات: عوام کے لیے کھڑا ہونا
اپنی 50 سالہ تاریخ میں 'ایناڈو' نے حکومت کو اس کے کاموں کے لیے جوابدہ ٹھہراتے ہوئے مسلسل لوگوں کی حمایت کی ہے۔ اخبار نے ضرورت پڑنے پر حکام کو چیلنج کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ اس کی ایک قابل ذکر مثال 2004 میں پیش آئی، جب 'ایناڈو' نے وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی حکومت کے اندر بدعنوانی کا پردہ فاش کیا اور اسے بے نقاب کیا۔ اخبار نے انکشاف کیا کہ کس طرح عوامی وسائل کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، جس میں ذاتی فائدے کے لیے زمین اور وسائل کی غیر قانونی تخصیص بھی شامل ہے۔
ان انکشافات کے جواب میں وائی ایس آر حکومت نے راموجی راؤ اور 'ایناڈو' کو نشانہ بناتے ہوئے جوابی کارروائی کی۔ حکومت نے راؤ کی ملکیتی املاک کو تباہ کرنے کی کوشش کی، جس میں راموجی فلم سٹی کے کچھ حصے بھی شامل ہیں، جو ایک بڑا فلم اسٹوڈیو کمپلیکس ہے۔ فلم سٹی کے اندر عمارتیں اور بنیادی ڈھانچے کو منہدم کر دیا گیا، اور سڑکیں جو کہ مقامی کمیونٹیز کی خدمت کرتی تھیں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان جارحانہ اقدامات کے باوجود راموجی راؤ پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے قانونی ذرائع سے حکومتی اقدامات کا مقابلہ کیا اور تنقیدی رپورٹیں شائع کرنے کا سلسلہ بدستور جاری رکھا۔ اس مشکل دور میں ان کی ثابت قدمی نے صحافتی سالمیت اور عوامی مفاد کے لیے ان کی وابستگی کا ثبوت دیا۔
- سنہ 2019-2024: آمریت کے خلاف جمہوریت کا دفاع
سنہ 2019 اور 2024 کے درمیان، ریاست نے وائی ایس جگن موہن ریڈی کی قیادت میں آمرانہ طرز عمل میں اضافہ دیکھا۔ اس دوران 'ایناڈو' نے حکومت کی بدتمیزی کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ اخبار کو جگن کے دور میں بھی زبردست ہراسانی بشمول دھمکیاں اور اس کے عملے کو ڈرانے کی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ سچائی کی اطلاع دینے کے اپنے مشن میں ثابت قدم رہا۔
'ایناڈو' نے حکومت کے اختیارات کے غلط استعمال کو بے نقاب کرنے اور عوام کے تحفظات کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اخبار کی بے خوف رپورٹنگ نے حکومت کے اقدامات کو چیلنج کرنے میں مدد کی اور 2024 کے اسمبلی انتخابات میں اہم سیاسی تبدیلیوں کا باعث بنا۔ اس دور نے آمریت کے خلاف ایک اہم انسداد اور جمہوری اصولوں کے محافظ کے طور پر 'ایناڈو' کے کردار کو اجاگر کیا۔
- عزت اور اعتماد حاصل کرنا
مخالفت کا سامنا کرنے کے باوجود، 'ایناڈو' نے برسوں کے دوران عوام اور سیاسی رہنماؤں دونوں کا احترام اور اعتماد حاصل کیا۔ یہاں تک کہ جنہوں نے ابتدا میں اخبار پر تنقید کی یا اسے نظرانداز کیا وہ بھی اس کے اثر و رسوخ اور اعتبار کی قدر کرنے لگے۔ مثال کے طور پر، سابق چیف منسٹر ماری چنا ریڈی، جنہوں نے ایک بار 'ایناڈو' کے زیر اہتمام ایک تقریب میں شرکت سے انکار کیا تھا، بعد میں اخبار کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے درست اور بروقت معلومات بالخصوص سیلاب اور طوفان جیسی ہنگامی صورتحال کے دوران 'ایناڈو' پر انحصار کیا، ۔ یہ احترام خبروں کے معتبر ذریعہ کے طور پر اخبار کے کردار اور عوامی اور سیاسی زندگی پر اس کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔
- سنہ 1983 میں راموجی راؤ کا منحرف موقف: پریس کی آزادی اور جمہوری حقوق کے لیے ایک تاریخی جنگ
راموجی راؤ کی آزادی صحافت کی جنگ درحقیقت ہندوستانی میڈیا کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ 9 مارچ 1983 کا تنازعہ، قانون ساز کونسل کے فیصلے اور اس کے بعد کی قانونی اور سیاسی تدبیروں کے گرد گھومنا صحافتی سالمیت اور آزادی کے لیے ان کی انتھک وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔
تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب راموجی راؤ کے اخبار نے 'بزرگوں کا جھگڑا' کے عنوان سے ایک تنقیدی تحریر شائع کی، جس پر کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ کانگریس ایم ایل سی کی زیرقیادت قانون ساز کونسل نے راؤ کو ان کی گرفتاری کا حکم دے کر نظم و ضبط کرنے کی کوشش کی، جس نے آئینی بحران کو جنم دیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے گرفتاری کے حکم پر روک لگانے کے باوجود، سیاسی اور قانونی اداروں کی جانب سے خاصے دباؤ کے ساتھ صورت حال مزید بگڑ گئی۔
ڈرامائی عروج 28 مارچ 1984 کو ہوا، جب حیدرآباد کے پولیس کمشنر وجئے راما راؤ نے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کے ساتھ گرفتاری کے خلاف راؤ کے فیصلے نے آزادی صحافت اور سیاسی اتھارٹی کے درمیان تناؤ کو اجاگر کیا۔ اس واقعے نے میڈیا کے حقوق کے معاملے پر قومی توجہ مبذول کرائی اور بھارت میں آزادی صحافت کے لیے ایک مثال قائم کی۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا میں راموجی راؤ کی قیادت نے پریس کی آزادی کے محافظ کے طور پر اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا۔ ان کی کاوشوں نے میڈیا کے حقوق اور جمہوری اقدار پر وسیع تر گفتگو میں اہم کردار ادا کیا، جمہوری معاشرے میں ایک طاقتور اور خود مختار ادارے کے طور پر پریس کے کردار پر زور دیا۔ راموجی راؤ کی پریس کی آزادی اور سالمیت کے لیے مضبوط لگن نے 'ایناڈو' کو ہندوستان میں ایک قابل اعتماد اور بااثر عوامی آواز بنا دیا ہے، جو مسلسل جمہوریت اور لوگوں کے حقوق کا دفاع کرتی ہے۔