حیدرآباد: یہ سنہ 2024 ہے اور فی الحال اے آئی ہماری زندگی میں اس وقت عام ہو چکا ہے۔ اگر چند دہائیوں پہلے کی بات کریں تو یہ صرف ایک سائنس فکشن تھا۔ تو ایسا کیا ہو گیا اور ایسی کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں جس نے اے آئی کو سائنس فائی کتابوں اور فلموں سے عام لوگوں کی زندگیوں میں داخل کر دیا؟ اس تفصیلی رپورٹ میں اے آئی کی تاریخ، آغاز، اقسام اور اس کے مستقبل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مصنوعی ذہانت (AI) کیا ہے؟
مصنوعی ذہانت میں ذہانت( Intelligence) سے مراد مشینوں کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر باخبر فیصلہ کرنے یا اقدامات کرنے کی صلاحیت ہے۔ انسانوں کو ذہین مخلوق کہا جاتا ہے کیونکہ ہم اپنے آس پاس سے معلومات کو جمع کر کے آزادانہ فیصلے کر سکتے ہیں۔
انسانی دماغ میں سیکھنے، معلومات کے اربوں بٹس کو ہر سیکنڈ میں پروسیس کرنے، مسائل کو حل کرنے، منطقی استدلال وغیرہ استعمال کرنے کی منفرد صلاحیت ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت میں، اس ذہانت کو مشینوں کے ذریعے نقل کیا جاتا ہے۔ انہیں معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور پھر انسانی ذہانت کی نمائش کے لیے پروگرام بنایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے پر جب ایک مشین اپنے طور پر اقدامات کرنے کے قابل ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی اس کو عقلی بنا سکتی ہے تو ظاہر ہے اسے ذہین سمجھا جائے گا۔
مختصر طور پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ، اے آئی پیچیدہ مسائل کو حل کرنے، فیصلے لینے جیسے وہ تمام کام انجام دے سکتا ہے جسے کمپیوٹر سسٹم سے حل کرنے کے لیے انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مصنوعی ذہانت (AI) کے چھ ڈومینز ہیں، جس میں مشین لرننگ، ڈیپ لرننگ، روبوٹکس، ایکسپرٹ سسٹم، مبہم منطق (Fuzzy Logic)، نیچرل لینگویج پروسیسنگ شامل ہیں۔
اے آئی کی تاریخ اور موجودہ شکل:
مصنوعی ذہانت کی تاریخ:
رومیوں اور یونانیوں کے افسانوں میں مشینی مردوں کا بے شمار ذکر ملتا ہے، جسے جدید دور کا روبوٹ کہا جا سکتا ہے۔ یونانی افسانوں میں ایک ایسا ہی مشہور نام تالوس ہے۔ افسانے میں بتایا گیا ہے کہ، تالوس ایک بڑا کانسے کا آٹومیٹن تھا جو یونانی شہر یوروپا کو قزاقوں اور باہری حملہ آوروں کے حملوں سے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ان افسانوں سے آگے بڑھیں تو ہماری فلمیں اور کتابیں ایسی مشینوں سے جڑی ہوئی ہیں، جو آزادانہ طور پر سوچتی ہیں۔ ان چیزوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ، انسانوں کو طویل عرصے سے اپنے ذہن کے ساتھ انسان نما اشیاء کا خیال آتا رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کا آغاز اور ترقی:
صدیوں سے، فلسفیوں نے انسانی دماغ کے سوچنے کے عمل کو ایک 'علامتی نظام' کے طور پر سوچا ہے۔ چاہے وہ ایک خلا کے مشن پر ہوں یا دیگر اسپیس سے آئے ایلئنس سے لڑ رہے ہوں، انسانوں کے روبوٹک ساتھی سائنس فائی پاپ کلچر کا مرکز رہے ہیں۔ ہالی ووڈ کی میٹرکس اور مین ان بلاک جیسی فلموں میں اس چیز کو اچھی طریقہ سے پیش کیا گیا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے دائرے میں حقیقی ترقی 1956 میں شروع ہوئی جب مصنوعی ذہانت کے شعبے کو باضابطہ طور پر قائم کیا گیا تھا۔
نظریاتی کمپیوٹر سائنس کے موجد کے طور پر اپنی پہچان بنانے والے برطانوی ریاضی کے ماہر ایلن ٹورنگ نے ایک تجویز پیش کی جو اے آئی کی بنیاد بن گئی۔ تجویز سادہ تھی، جس میں انسانی دماغ کی طرح، مشینیں معلومات کا استعمال مسائل کو حل کرنے اور معلومات کے دیئے گئے سیٹ کی بنیاد پر انتخاب اور فیصلے کیوں نہیں کر سکتیں؟
1950 کی دہائی کے ٹورنگ کے ایک مقالے میں ایسی ذہین مشینیں بنانے کے بارے میں لکھا گیا جو فیصلے کرنے اور عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ان کی ذہانت کو کیسے جانچا جا سکتا ہے۔
تاہم، اس مقالے کے خیالات فوری طور پر سامنے نہیں آئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ، کسی بھی مشین کو ذہین بننے کے لیے، اسے کمانڈز کو ذخیرہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اور یہ 1950 کی دہائی میں ممکن نہیں تھا۔
اس کے چند سال بعد مصنوعی ذہانت کی اصطلاح باضابطہ طور پر ڈارٹ ماؤتھ کالج میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جان میک کارتھی نامی کمپیوٹر سائنس دان نے وضع کی، جنھیں اے آئی کا موجد کہا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں دو ماہ تک دس افراد کی تعلیم کی تجویز پیش کی گئی۔
میکارتھی نے تجویز پیش کی کہ اے آئی کو سمجھنے کے لیے مطالعہ یہ دریافت کرنے پر کام کرے گا کہ، مشینوں کو زبانیں استعمال کرنے، تجریدات اور تصورات بنانے، انسانوں کے لیے مختص قسم کے مسائل کو حل کرنے، اور خود کو بہتر بنانے کا طریقہ شامل ہو۔
علمی سائنس دانوں کی کمیونٹی مصنوعی ذہانت کے مستقبل کو لے کر پرامید تھی۔
سنہ 2000 یعنی 21ویں صدی کے آغاز میں، ہونڈا کا اسیمو روبوٹ منظر عام پر آیا جوانسانوں کی طرح کام کرتا تھا، ہوٹلوں میں گاہک تک ٹرے پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ اسی سال، کسمٹ نامی روبوٹ ایجاد ہوا جس میں انسانی جذبات کو سمجھنے اور ان کی نقل کرنے کی صلاحیت تھی۔