نئی دہلی: اس سلسلے میں معروف عالم دین اور جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے خاص بات چیت کی۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کے دوران کہا کہ مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈوں کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماً ممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔
سینٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم ممبر رکھا جاسکتا تھا، مجوزہ بل میں یہ تعداد 13 تک ہوسکتی ہے، جس میں دو تو لازماً ہونے ہی چاہئے۔ اسی طرح وقف بورڈ میں پہلے صرف چیرمین غیر مسلم ہوسکتا تھا لیکن مجوزہ بل میں یہ تعداد 7 تک ہوسکتی ہے جب کہ بل کے مطابق دو تو لازماً ہوں گے۔ یہ تجویز دستور کی دفعہ 26 سے راست متصادم ہے جو اقلیتوں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی و ثقافتی ادارے نہ صرف قائم کر سکتے ہیں بلکہ اس کو اپنے انداز سے چلا بھی سکتے ہیں۔
موجودہ وقف ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت وقف بورڈ کی طرف سے تجویز کردہ دو افراد میں سے کسی ایک کو نامزد کرسکتی تھی جو کہ ڈپٹی سکریٹری کے رینک سے نیچے کا نہ ہو لیکن اب وقف بورڈ کے تجویز کردہ کی شرط ہٹا دی گئی ہے اور اب ڈپٹی سکریٹری کی شرط کو ہٹاکر کہا گیا ہے کہ وہ جوائنٹ سکریٹری کی رینک سے کم نہ ہو۔ یہ ترمیمات واضح طور پر سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں کے اختیارات کو کم کرتی ہے اور حکومت کی مداخلت کا راستہ ہموار کررہی ہے۔
مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مجوزہ ترمیمی بل وقف املاک پر حکومتی قبضہ کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر کسی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار بھی کلکٹر کے حوالہ کردیا گیا ہے۔ کلکٹر کے فیصلہ کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کروائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے کہے گی کہ وہ اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کر دے۔