اردو

urdu

ETV Bharat / state

مدراس ہائی کورٹ نے طلاق معاملے میں ذاتی حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے کہا 'ویڈیو کال کافی'

مدراس ہائی کورٹ نے ویڈیو کال کے ذریعے امریکہ میں رہنے والے چنئی کے ایک جوڑے کے طلاق کا معاملہ نمٹا دیا۔

مدراس ہائی کورٹ
مدراس ہائی کورٹ (ETV Bharat)

By ETV Bharat Urdu Team

Published : 5 hours ago

چنئی:مدراس ہائی کورٹ نے طلاق کے ایک کیس میں امریکہ میں رہنے والے چنئی کے ایک جوڑے کو بڑی راحت دی ہے۔ مدراس ہائی کورٹ نے طلاق کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کے لیے ویڈیو کال کافی ہے۔ آج دنیا میں جدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔ طلاق کے معاملات میں جوڑے کو ذاتی طور پر پیش ہونے پر مجبور کیے بغیر ویڈیو کانفرنسنگ سے پوچھ گچھ کے ذریعے طلاق دی جا سکتی ہے۔

چنئی کی ایک خاتون نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی شادی 2016 میں چنئی کے چیٹ پیٹ میں ہندو رسم و رواج کے مطابق ہوئی تھی۔ شادی کا رجسٹریشن پیریامیڈو کے رجسٹری آفس میں ہوا تھا۔ شادی کے بعد دونوں امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں رہنے لگے۔ دونوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے انہوں نے 2021 میں علیٰحدگی کا فیصلہ کیا۔

اس کے بعد خاتون نے چنئی فیملی کورٹ میں طلاق کا مقدمہ دائر کر دیا۔ ویزے کے مسائل کی وجہ سے اس کے شوہر مقدمے کی سماعت کے لیے بھارت نہیں آ سکے۔ اس لیے اس کے والد نے بطور پاور ایجنٹ درخواست دائر کی۔ 2023 میں دائر طلاق کا مقدمہ زیر التوا تھا۔ جب یہ کیس سماعت کے لیے لسٹ ہوا تو کیس کو اس وجہ سے بار بار ملتوی کیا گیا کیوں کہ ان کے شوہر ویزا کی وجہ سے ذاتی طور پر پیش نہیں ہو سکے۔

خاتون نے مقدمے کی سماعت کے لیے ویڈیو کانفرنسنگ کی اجازت مانگی۔ تاہم عدالت نے ان کی درخواست قبول نہیں کی کیونکہ ان کے شوہر نے بھی اسی درخواست کے ساتھ عرضی دائر کی تھی۔ بعد ازاں فیملی کورٹ نے امریکن ایمبیسی کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہونے کی ہدایت کی۔ جب دونوں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہوئے تو فیملی کورٹ نے مقدمہ درج کیا۔

یہ بھی پڑھیں: یہ بھی پڑھیں: طلاق سے انکار ظلم کے مترادف: کیرالہ ہائی کورٹ

کیس کی سماعت کرنے والے ہائی کورٹ کے جج نرمل کمار نے کہا کہ صرف فوجداری مقدمات میں متعلقہ افراد کی ذاتی حاضری لازمی ہے۔ دیگر معاملات میں بالخصوص طلاق کے معاملات میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہونے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ طلاق کے مدعی کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں سے متعلق ثبوت اور حلف نامے پہلے ہی عدالت میں جمع کرائے جا چکے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ دونوں فریق امریکہ میں کام کر رہے ہیں اس لیے انہیں ہر بار سماعت کے موقعے پر ذاتی طور پر حاضر ہونے کے لیے نہیں کہا جا سکتا۔ آج دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی کو بھی انصاف فراہم کرنے کے لیے ویڈیو سرویلانس کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔ لہٰذا عدالت ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت کو یقینی بنائے۔

انہوں نے حکم دیا کہ جب طلاق کا مقدمہ زیر التوا تھا تو ان کی ذاتی طور پر حاضری بے سود تھی۔ طلاق کا مقدمہ دائر کرتے وقت فریقین کی موجودگی ہی کافی ہے۔ اس وقت بھی جب ویڈیو میں نظر آنے والے لوگ اپنی شناخت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اگر سب کچھ درست پایا جائے تو طلاق دی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:

مطلقہ مسلم خاتون اپنے شوہر سے نان نفقہ مانگ سکتی ہے: سپریم کورٹ

مطلقہ خاتون کے نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ شریعت میں مداخلت ہے: مختلف علماء کا بیان

ABOUT THE AUTHOR

...view details