اتر پردیش اردو اکاڈمی کی جانب سے ریسرچ اسکالرس پرسمینار کا انعقاد لکھنؤ:لکھنؤ میں منعقدہ سمینار کی صدارت پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ نے کی۔انہوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ تحقیق بہت ہی تحمل اور دل جمعی کا کام ہے۔ تحقیق کے میدان سے آسانی کے ساتھ نہیں گزرا جا سکتا ہے۔ اس میں محنت شاقہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے اپنے خطاب پیش کئے گئے مقالات کا جائزہ لیا ۔انہوں نے کہا کہ ریسرچ اسکالرس کا مقالہ معروضی ہونا چاہیے۔مقالہ کی زبان میں تشبیہ اور استعارے کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔مقالہ میں غیر ضروری اقتباسات سے بچنا چاہیے۔ بلکہ اپنا واضح نکتہئ نظر پیش کرنا چاہئے۔
پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ریسرچ اسکالرز کآ مقالہ سنا، خوش ائند بات یہ ہے کہ طلبا نے بھرپور کوشش کی ہے لیکن مقالہ نگاروں کو چند بات کا باتوں پر ضرور توجہ دینی چاہیے، جس سے مقالہ جامع اور مانع ہو۔موجودہ دور میں ریسرچ اسکالرز جو مقالہ لکھ رہے ہیں۔ اس میں کسی شخص کو کوٹ کریں تو اس حیثیت سے کریں کہ اس میں کوئی کمی رہ گئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ زندہ شخص پر کیسے پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے جبکہ اس کے ادبی خدمات نا مکمل ہیں ان کی زندگی بھی مکمل نہیں ہے لہذا زندہ شخصیات پر پی ایج پی ڈی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ مقالہ نگار کو چاہیے کہ اپنے مقالہ کو جامع اور معنی بنائیں جامع کا مطلب ہوا کہ جن موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں اس سے متعلق ہی باتیں تحریر کریں اور جو باتیں موضوع سے متعلق نہ ہوں ان کو بے وجہ مقالے میں تحریر نہ کریں۔
ڈاکٹر صبیحہ انور نے کہا کہ تحقیق لفظ حق سے نکلا ہے یا حقیقت سے نکلا ہے لہٰذا، مقالہ میں حقیقت بیانی سے کام لیاجانا چاہیے۔ تحقیق نہ خشک ہونا چاہیے اور نہ بہت ہی رنگین۔
یہ بھی پڑھیں:Uttar Pradesh Urdu Academy مظفرنگر میں اتر پردیش اردو اکاڈمی کے زیر انتظام مفت اردو کوچنگ سنٹر15 جولائی سے
مہمان اعزازی ڈاکٹر عاصم رضوی نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اورکہا کہ تحقیق تربیت کا مرحلہ ہے۔لہٰذا ایک ریسرچ اسکالر کو موضوع سے وابستہ رہتے ہوئے اس کے جواز اور اس کی معنویت پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیے۔ اس موقع پر سکریٹری اکادمی ایس ایم عادل حسن نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ نظامت کے فرائض پروفیسر ریشما پروین،صدر شعبہ اردو، کھن کھن جی پی - جی کالج نے انجام دئے۔