لکھنؤ:مولانا جواد نے ملت اسلامیہ ہند کے ساتھ ساتھ ملک کی سیکولر طاقتوں اور این ڈی اے میں شامل نتیش اور نائیڈو سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں کیونکہ یہ وقف کے ساتھ ساتھ ملک کو تباہ کرنے والا بل لایا گیا ہے جو سانپ کا بل ہے۔ یہاں کربلا جور باغ میں منعقدہ پریس کانفرنس میں مولانا کلب جواد کے ساتھ انجمن حیدری کے جنرل سکریٹری ایڈووکیٹ بہادر عباس، سکریٹری جامعی رضوی، دیگر علما اور ذمہ داران شامل رہے اور اپنے خیالات پیش کیے۔
مولانا جواد نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے جو وقف ترمیمی بل 2024 لایا گیا ہے جس کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوا کہ اس کے ذریعہ اوقاف کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ریلوے اور وزارت دفاع کے بعد سب سے زیادہ زمین وقف بورڈ کے پاس ہے اور یہ دوسروں کی زمین پر قبضہ ہے تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے کیونکہ وقف بورڈ تو ایک انج وقف کی زمین کا مالک نہیں ہے، وہ صرف چوکیدار ہے کہ جیسے مودی جی خود کو ملک کا چوکیدار کہتے ہیں کیونکہ وہ ملک کے مالک نہیں ہیں۔ وقف بورڈ صرف کیئر ٹیکر ہے، محافظ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نام پر مسلمانوں نے جو اپنی جائیداد دے دی ہے وہ ہے وقف، نہ اس کا مالک حکومت ہو سکتی ہے اور نہ وقف بورڈ ہو سکتا ہے۔
یہ زمین اچھے کاموں کے لیے وقف کی گئی ہے۔ یہ صرف اب اللہ کی جائیداد ہے۔ اللہ کی زمین پر تم کیسے قبضہ کر سکتے ہو؟ جو بھگوان کے نام پر زمین دے دی گئی ہے اس پر کوئی کیسے قبضہ کر سکتا ہے؟ یہ وقف ترمیمی بل بہت بڑا دھوکہ ہے۔ اس میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ہم وقف تب مانیں گے جب وقف ڈیڈ لائیں گے۔ پانچ سو سال پرانی درگاہ ہے تو کیا اس کی ڈیڈ ہوگی۔ آصفی امام باڑہ ہے جہاں پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں تو کیا اس کی وقف ڈیڈ مل جائے گی۔ شاہی جامع مسجد دہلی کی کیا وقف ڈیڈ مل جائے گی اور اگر نہیں ملے گی تو کیا یہ حکومت کی زمین ہو جائے گی؟
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ اور جو دوسری عبادت گاہیں ہیں ان کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، صرف پوجا ہی کافی ہے۔ کہیں مورتی ہے تو مندر مانا جائے گا لیکن پانچ سو سال سے اگر کہیں نماز ہو رہی ہے تو اس کو مسجد نہیں مانا جائے گا۔ اس کے لیے وقف ڈیڈلائن لاؤ یہ کتنا بڑا بھید بھاؤ ہے۔ مندروں کے لیے وقف ڈیڈ نہیں مانگ رہے ہیں، گرودوارہ کے لیے نہیں مانگ رہے ہیں، چرچ کے لیے نہیں مانگ رہے ہیں۔ مسجدوں کے لیے مانگ رہے ہیں۔
کلب جواد نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ چار سو، پانچ سو سال پہلے وقف بورڈ تھا کیا؟ نہیں تھا تو وقف ڈیڈ کیسے مل جائے گی۔ مسجد پانچ سو سال پرانی اور وقف بورڈ سو سال پرانا تو کیسے وقف ڈیڈ ملے گی۔ پہلے زبانی وقف ہوتا تھا، صرف صیغہ پڑھ دیا جاتا تھا۔ بل میں کہا جا رہا ہے کہ وقف بائی یوزر نہیں اور یہ صرف مسلمانوں کے لیے بنایا جا رہا ہے کہ وقف بائی یوزر نہیں۔ ورنہ سب جگہ یہی ہے۔ کہیں پوجا ہو رہی ہے۔ اس کو آپ مندر مان رہے ہیں، مورتی رکھی ہے تو مندر مان رہے ہیں۔ لیکن مسجد میں نماز ہو رہی ہے تو اس کو آپ مسجد نہیں مانیں گے۔ امام باڑہ میں مجلس ہو رہی ہے لیکن امام باڑہ نہیں مانیں گے۔ درگاہ میں عقیدت مند آ رہے ہیں لیکن درگاہ نہیں مانیں گے۔ یہ تو ظلم ہے۔ اب کلکٹر فیصلہ کرے گا کہ وقف ہے یا نہیں ہے۔ تین سے چار لاکھ وقف ڈیڈ ہیں سب فارسی میں یا اردو میں ہیں تو کیا کلکٹر اردو یا فارسی سمجھ جائے گا۔ وہ کہے گا کہ ترجمہ کرکے لاؤ اور وقت دیا گیا ہے صرف 6 مہینے کا۔ جب کہ صرف ترجمہ کرانے میں دس سال لگ جائیں گے۔