علی گڑھ:سر سید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے جب انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج 8 جنوری 1877 میں قائم کیا تو ان کے خلاف فتوے دیے گئے۔ ان کا قتل کرکے ان کے بنائے گئے کالج کو منہدم کر دینے کی بھی بات کہی گئی تھی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو ملک کے مسلمانوں نے 1920 میں برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت حاصل کیا تھا جو موجودہ دور میں اپنے 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔ 1981 ایکٹ کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادارا ہے لیکن اس کے خلاف حکومت نے ایک حلف نامہ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے بی او اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حکومت کے فنڈ سے چلایا جانے والا ادارہ ہے اور اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں۔
واضح رہے اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے یا اس کو ختم کرنے سے متعلق سات ججوں کی بینچ نے سپریم کورٹ میں 9 سے 11 جنوری تک سماعت ہوئی جس کی اگلی سماعت اب 23 جنوری سے شروع ہوگی۔ اے ایم یو کے اقلیتی کردار اور اس کے 1920 پارلیمانی ایکٹ میں پہلی مرتبہ 1951 میں وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا آزاد کے ذریعے ترمیم کئے جانے سے متعلق مصنف و اے ایم یو سے ریٹائرڈ پروفیسر عارف الاسلام نے بتایا مولانا آزاد سر سید کی کامیاب جدید تعلیمی مشن کی وجہ سے ناراض تھے، ملک کے تقسیم سے قبل سے ہی مسلمانوں کے لئے جدید تعلیم سے متعلق سر سید کی ہر چیز کی مولانا آزاد نے مخالف کی۔
عارف الاسلام نے 1912 کے الہلال البلال اخبارات، خلافت تحریک کی تقریر اور مولانا کے خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی سخت مخالفت کی تھی اور جب وہ آزادی کے بعد وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے پارلیمنٹ میں اے ایم یو 1920 ایکٹ ترمیم بل پیش کرکے اس کے اقلیتی کردار کی بنیادی چیزوں کو ختم کردیا، جسے انہوں نے اے ایم یو میں جو پہلے دینیات کی تعلیم لازمی تھی اس کو ختم کیا، اعلی گورننگ باڈی اے ایم یو کورٹ میں غیر مسلم کو بی رکنیت حاصل کرنے کی اجازت دی تھی۔
1951 ترمیمی ایکٹ کی بنا پر ہی 1967 میں اے ایم یو سے اقلیتی کردار یہ کہ کر چھین لیا گیا کہ اے ایم یو کو قائم تو مسلمانوں نے کیا تھا لیکن چونکہ غیر مسلم بھی اے ایم یو کورٹ کے ممبر ہیں تو اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں۔