گیا:ریاست بہار کے ضلع گیا میں پارلیمانی انتخابات کو لے کر کوئی خاصی ہلچل مسلمانوں میں نہیں ہے۔ کیونکہ یہ محفوظ سیٹ ایس سی ایس ٹی طبقہ کے لئے ہے ۔گزشتہ 25 برسوں سے مانجھی برادری سے تعلق رکھنے والے رہنما ہی رکن پارلیمان بن رہے ہیں۔ گزشتہ25 برسوں سے مانجھی بمقابلہ مانجھی ہی ہوتا تھا لیکن اس بار اے آئی ایم آئی ایم اور آر جے ڈی نے پاسوان برادری سے امیدوار کھڑا کیا ہے۔ اس سے واضح ہوگیا ہے کہ مانجھی بنام مانجھی نہیں بلکہ مانجھی بنام پاسوان ہوسکتا ہے۔
لیکن ان سب کے درمیان گیا میں مقابلہ این ڈی اے بنام انڈیا اتحاد ہی طے ہے۔ ترقیاتی منصوبوں اور ایجنڈوں کے بجائے پھر سے پرانی روایتوں کی طرح ایجنڈے طے کر دیے گئے ہیں۔ این ڈی اے میں ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر کو گیا پارلیمانی سیٹ ملی ہے۔امیدوار سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی ہیں۔ مانجھی این ڈی اے میں بی جے پی کے کوٹے سے ہیں۔اس کا اثر بھی ان پر واضح طور پر دکھ رہا ہے۔
مانجھی نتیش کمار کے بنسبت بی جے پی کی قصیدہ خوانی زیادہ کررہے ہیں۔ مانجھی نے اپنے نام کا اعلان ہوتے ہی ہندوتوا کی سیاست کا بڑا پیغام دیاہے۔ کچھ ماہ قبل رام کے وجود سے انکار کرنے والے مانجھی کا دل اچانک بدل گیا۔اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ نامزدگی کا پرچہ داخل کرنے سے پہلے ایودھیا جاکر رام مندر کی زیارت کریں گے۔
اُنہوں نے ایسا کیا بھی ہے اور اطلاع کے مطابق 28 مارچ کو نامزدگی کا پرچہ داخل کریں گے۔ جبکہ پہلی بار لوک سبھا انتخابات میں قسمت آزمانے کا موقع آر جے ڈی نے سابق ریاستی وزیر کمار سروجیت کو دیا ہے۔ سروجیت پاسوان برادری سے آتے ہیں، مقابلہ سخت تو تسلیم کیا جارہا ہے لیکن پلڑا کس کا بھاری ہے ۔ابھی کہنا قبل از وقت ہے۔ ابھی تصویر اور واضح ہونی باقی ہے لیکن ان سب کے درمیان گیا پارلیمانی حلقہ میں مسلم ووٹروں کی خاموشی انڈیا اتحاد' آر جے ڈی' کو ستانے لگی ہے۔
انڈیا اتحاد میں چاروں سیٹوں پر آر جے ڈی نے اپنا امیدوار کھڑا کردیا ہے حالانکہ اورنگ آباد کانگریس کی روایتی نشست ہے لیکن آر جے ڈی نے یہاں جے ڈی یو کے ضلع صدر کو ہی امیدوار بنادیا۔ اورنگ آباد پارلیمانی حلقہ میں مسلمانوں کی آبادی خاصی ہے اور یہاں سے مسلم رہنماؤں کی امیدواری کا مطالبہ تھا لیکن آر جے ڈی نے اس کو نظر انداز کر مسلم طبقہ سے بھی کم آبادی والی برادری ' کوشواہا ' برادری کے رہنما کو ٹکٹ دے دیا جسکی وجہ سے ناراضگی سامنے آگئی ہے حالانکہ آر جے ڈی کو توقع ہے کہ ناراضگی ختم ہو جائے گی لیکن پھر بھی مسلم ووٹروں کی خاموشی ان کے لیے پریشان کن ہے۔