سرینگر (جموں و کشمیر):ایک اہم پیشرفت میں، جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے شعبہ حیوانیات کے محققین نے کیڈیس فلائی کی ایک نئی نسل کی نشاندہی کی ہے، جو بھارتی ہمالیہ میں Rhyacophila جنس کو وسعت دیتی ہے۔تبرک علی، زاہد حسین، عاقب مجید، منپریت سنگھ پنڈھر، اور سجاد پرے کے ایک حالیہ تحقیقی مقالے میں شائع ہونے والے نتائج دنیا کو Rhyacophila masudi سے متعارف کراتے ہیں۔
یہ دریافت بھارت کے شمال مغربی ہمالیائی خطے میں خاص طور پر جموں و کشمیر کے پیر پنچال خطے میں کی گئی ہے، جو اس خطے کی بھرپور حیاتیاتی تنوع کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس انکشاف کے ساتھ ہی بھارت میں Rhyacophila کی نسل کی کل تعداد اب 166 ہوگئی ہے، جیسا کہ مقالے میں بتایا گیا ہے۔ "Rhyacophila کیڈیس فلائیز Rhyacophilidae خاندان سے تعلق رکھتی ہے، انہیں suborder Integripalpia کے Basal Lineages میں سے ایک کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے، جو اپنے ابتدائی نوع کی وجہ سے حیاتیاتی جغرافیائی اہمیت کے حامل ہیں۔ جبکہ یہ کیڈیس فلائیز بنیادی طور پر شمالی معتدل علاقوں جیسے شمالی امریکہ، یورپ اور شمالی ایشیا میں پائی جاتی ہیں، لیکن ان کی موجودگی بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا کے ٹراپیکل زون تک پھیلی ہوئی ہے۔
Rhyacophila جنس اس خاندان میں سب سے بڑی ہے، جس میں دنیا بھر میں 800 سے زیادہ بیان کی گئی نسلیں موجود ہیں۔ بھارت میں دو Rhyacophilid جنس موجود ہیں: Rhyacophila اور Himalopsyche، Rhyacophila خاص طور پر ہمالیہ کے علاقے میں پائی جاتی ہے۔ Rhyacophila کی زیادہ تر بھارتی نسلیں اس علاقے کی مقامی ہیں، لاروا جنہیں ندی کی تہوں میں آزادانہ طور پر گھومنے کی منفرد صلاحیت کے لیے جانا جاتا ہے، جو سطح سمندر سے تقریباً 3500 میٹر سے زیادہ کی بلندی پر پھلتے پھولتے ہیں۔
مقالے کے مطابق، محققین نے جموں و کشمیر اور ہماچل پردیش میں مختلف مقامات سے Rhyacophila masudi کے 14 نر نمونے جمع کیے، جو سطح سمندر سے 1770 سے 3680 میٹر کی بلندی پر تھے۔ باریک مورفولوجیکل مطالعے میں نمونے جمع کرنے کے لیے 15 واٹ کی الٹراوائلٹ لائٹ کا استعمال شامل تھا، اس کے بعد 96% ایتھانول میں محفوظ رکھنے کے بعد نر کے اعضاء تناسل کو احتیاط سے نکالا گیا، lactic acid تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے اور اسٹیریوزوم مائکروسکوپ کے تحت معائنہ کیا گیا۔ پھر مختلف کیمروں اور سافٹ ویئر کے ذریعے عسکر تیار کیا گیا۔
محققین کے مطابق، اس نسل کا ابتدائی مشاہدہ بھارتی ہمالیہ میں کیڈیس فلائی نمونے لینے کی سرگرمیوں کے دوران ہوا، جبکہ نئی نسل نے پونچھ ضلع کے بفلیاز علاقے میں ڈی کے جی (ڈیرا کی گلی) جنگل میں اپنا آغاز کیا۔ بین الاقوامی سطح پر ڈاکٹر جان سی مورس، کلیمسن یونیورسٹی، امریکہ کے پروفیسر ایمریٹس آف اینٹومولوجی نے دریافت کو اپروو کیا اور قسم کے نمونے، بشمول ہولوٹائپ اور پیرا ٹائپ، اب راجوری میں بی جی ایس بی یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی کے میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ اس ریسرچ کو سائنس اور انجینئرنگ ریسرچ بورڈ (ایس ای آر بی)، حکومت ہند سے تعاون حاصل تھا ۔ محققین نے نمونے جمع کرنے میں استعمال ہونے والی الٹرا وائلٹ روشنی فراہم کرنے پر ڈاکٹر کارل کیجر کا شکریہ ادا کیا۔
مزید پڑھیں:اٹل رینکنگ 2020: بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی ٹاپ یونیورسٹیز میں شامل
ادھر، محققین نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری کے بانی وائس چانسلر مرحوم مسعود چودھری کی یاد میں اس نسل کا نام رائیسوفیلا مسعودی رکھا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ خراج تحسین یونیورسٹی میں ان کی نمایاں شراکت اور جموں و کشمیر کے پیرپنجال رینج میں تعلیمی مواقع کو بہتر بنانے کے لیے ان کی کوششوں کو تسلیم کرتا ہے۔‘‘