لکھنؤ:ایک طرف جہاں برسوں سے باحجاب مسلم لڑکیوں پر یہ الزام عائد ہوتا رہا کہ فرسودہ روایت کے حامل ہوتی ہیں اور اعلی تعلیم حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو دوسری جانب با حجاب مسلم لڑکیاں نہ صرف اپنے مذہب کے دائرے میں رکھ کر اعلی تعلیم حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر رہی ہیں بلکہ ان الزامات کی بھی عملی طور پر تردید کرتی ہیں۔ لکھنؤ کے معروف دینی ادارہ ندوۃ العلماء کے استاد مولانا علاؤ الدین ندوی کی بیٹی حمیرہ عالیہ نے معروف ناول نگار ابن صفی کے ناولوں کا تحقیقی و تنقیدی جائزے پر پی ایچ ڈی مقالہ جمع کر نہ صرف اپنے اہل خانہ کا نام روشن کیا بلکہ مسلم لڑکیوں کے لیے مذہبی دائرے میں رہتے ہوئے تعلیمی میدان میں نمونہ عمل بن کر دکھایا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت میں حمیرہ عالیہ نے کہتی ہیں کہ "اردو کے معروف ناول نگار ابن صفی کی ناولیں بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھتی ہیں تاہم ادب عالیہ میں انہیں خاطر خواہ مقام نہیں دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولز پر ہم نے تحقیقی و تنقیدی پی ایچ ڈی مقالہ پروفیسر عباس رضا نیر کی نگرانی میں لکھا ہے اور ان سوالوں کا جواب بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "اس پر کوئی کلام نہیں ہے کہ ابن صفی کی ناولیں عوام و خواص کے مابین خوب مقبول ہوئیں ہیں اور عوام نے خوب سراہا ہو، تاہم انہیں وہ مقام حاصل نہیں ہوا جو دیگر ناول نگاروں کو حاصل ہوئیں ہیں، اسکی بنیادی وجہ یہ رہی کہ ان کے ناولز کو جاسوسی کا ناول قرار دیا گیا اور عام فہم ہونے کی وجہ سے عوامی زبانی کے پیمانے پر رکھا گیا حالانکہ کہ ادب عالیہ میں ابھی تک کوئی پیمانہ ہی متعین نہیں کیا گیا ہے تو کیسے ان کو ادب عالیہ میں جگہ نہیں دیا گیا؟ اس کے بعد بھی یہ کہنا کہ ابن صفی کی ناول ادب عالیہ کی معیار پر نہیں اترتی یہ نا انصافی ہوگی"۔
مزید حمیرہ نے کہا کہ ابن صفی کے ناولوں کو جاسوسی ناول کہہ کر ان کو ادب عالیہ میں جگہ نہ دینا یہ ان کے ناولوں کے ساتھ اور ان کے اتنے بڑے کارنامے کے ساتھ ناانصافی ہوگی ہاں اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے ناول نگاری کا جو پیٹرن اختیار کیا ہے وہ دو طرح سے ہیں ایک یہ کی جرائم کا خفیہ کوئی سراغ بتاتا ہے اور اس پر کاروائی ہوتی ہے اور دوسرا پیٹرن یہ ہے کہ کسی ملک میں جاسوسی ہوتی ہے جو ان کے تمام تر حرکات و سکنات سے واقف کراتا جاتا ہے اس کے رد عمل میں کیا تیاری کرنا ہے ان تمام چیزوں سے اگاہ کرتا ہے۔ اس میں کوئی کلام بھی نہیں کہ ان کی اس دو طرح کے ناولوں میں عام فہم زبان کا استعمال کیا گیا ہے لیکن ان کی ناولوں کو اگر ادبی معیار کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھی کافی اہمیت کی حامل ہیں۔
وہ آگے کہتی ہیں کہ بنیادی طور پر ہماری تعلیم انگریزی ادب میں تھی لیکن مجھے بچپن سے ہی اردو زبان میں دلچسپی تھی اور گریجویشن میں ہمارے استاد نے مجھے اردو ادب میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا اور مجھے بےحد خوشی ہے کہ ہم نے اردو زبان و ادب کے حوالے سے پی ایچ ڈی مقالہ لکھا۔
ڈاکٹر حمیرہ عالیہ نے بتایا کہ ابتدائی تعلیم سے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرنے کا سفر کافی دلچسپ رہا، ابتدائی تعلیم گھر اور تعلیم گاہ نسواں سے حاصل کیا اس کے بعد لکھنؤ کے کرامت حسین کالج سے تعلیم حاصل کر اعلی تعلیم کے لئےلکھنو یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یہی پر شعبہ اردو میں پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کیا۔