'اگر ایمانداری سے فیصلہ ہوا تو یقیناً اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے حق میں ہوگا' - علیگڑھ مسلم یونیورسٹی
"If the decision is taken honestly, it will definitely be in favor of the minority role of AMU." سپریم کورٹ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کی سماعت جاری ہے۔ پہلے تین (9 سے 11 جنوری) دن کی سماعت میں اے ایم یو اپنے دلائل پیش کر چکی ہے، 11 جنوری کے بعد گزشتہ روز سے سات ججوں کی بینچ نے دوبارہ سماعت شروع کردی ہے جس پر اے ایم یو اور علیگ برادری کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔
Published : Jan 24, 2024, 9:17 PM IST
|Updated : Jan 25, 2024, 1:31 PM IST
علیگڑھ: علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کی سپریم کورٹ میں سماعت سے متعلق سر سید اکیدمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا 'اگر فیصلہ ایمانداری سے ہوا تو یقینا فیصلہ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے حق میں ہوگا اور اگر نہیں تو پھر اے ایم یو کا اللہ ہی مالک ہے"۔ سپریم کورٹ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کی سماعت جاری ہے۔ پہلے تین (9 سے 11 جنوری) دن کی سماعت میں اے ایم یو اپنے دلائل پیش کر چکی ہے، 11 جنوری کے بعد گزشتہ روز سے سات ججوں کی بینچ نے دوبارہ سماعت شروع کردی ہے جس پر اے ایم یو اور علیگ برادری کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔
واضح رہے حکومت نے کورٹ میں 'اے ایم یو 1981 ترمیمی ایکٹ' کے خلاف حلف نامہ دائر کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ اس لئے نہیں ہو سکتا کیونکہ اے ایم یو مرکزی فنڈ سے چلائی جاتی ہے اور اس کے منتظمین غیر مسلم بھی ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی سات ججوں کی آئینی بنچ نے اے ایم یو کی اقلیتی کردار سے متعلق معاملات کی سماعت گزشتہ روز سے دوبارہ شروع کردی ہے۔ سی جے آئی، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پارڈی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چند شرما شامل ہیں۔ اے ایم یو کی جانب سے ایڈووکیٹ راجیو دھون، اے ایم یو الومنائی اسوسی ایشنس کی جانب سے ایڈووکیٹ کپل سبل اور سلمان خورشید اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑ رہے ہیں، 9 سے 11 جنوری میں اے ایم یو کی جانب سے دلائل پیش کئے جا چکے ہیں۔
اے ایم یو کے اقلیتی کردار اور اس کی سپریم کورٹ میں جاری سماعت سے متعلق سر سید اکیدمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا سپریم کورٹ میں کو دلائل چل رہے ہیں وہ اچھے سمت میں ہیں، انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے مزید کہا "اگر سپریم کورٹ میں اے ایم یو کے اقلیتی کردار کا فیصلہ ایمانداری سے ہوا تو فیصلہ یقینا اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے حق میں ہوگا اور اگر اے ایم یو کی تاریخ اور اس کے اقلیتی کردار کی تاریخی حیثیت کو نظر انداز کرکے، جس طریقے سے الہ آباد ہائی کورٹ میں عزیز باشا کیس میں فیصلہ سنایا گیا اگر اسی انداز میں ججز نے موقف اختیار کیا تو پھر اے ایم یو کچھ نہیں کرسکتی اور اس ادارے کا اللہ ہی مالک ہوگا"
واضح رہے سر سید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے جب انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج 8 جنوری 1877 میں قائم کیا تو ان کے خلاف فتوے دیے گئے۔ ان کا قتل کرکے ان کے بنائے گئے کالج کو منہدم کر دینے کی بھی بات کہی گئی تھی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو ملک کے مسلمانوں نے 1920 میں برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت حاصل کیا تھا جو موجودہ دور میں اپنے 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔ 1981 ایکٹ کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادارا ہے لیکن اس کے خلاف حکومت نے ایک حلف نامہ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے بی او اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حکومت کے فنڈ سے چلایا جانے والا ادارہ ہے اور اس کو غیر مسلم بھی چلاتے ہیں۔