لکھنو :سکندر باغ چوراہے پر واقع سکندر محل کے احاطے میں داخل ہوتے ہوئے خوبصورت گیٹ نظر آتا ہے۔اس پر دو مچھلیوں کی نقاشی کی گئی ہے۔ گیٹ کو اگر محل کے صحن سے دیکھیں گے تو اس جانب دو مور کی نقاشی کی گئی ہے جو محل کی خوبصورتی میں کو بڑھاتا ہے۔ ساتھ ہی قدیم طرز تعمیر کو بھی اجاگر کرتا ہے ۔ محل کے مشرقی حصے میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تعمیر ہے ۔اس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ نواب واجد علی شاہ نے اس مسجد کی تعمیر بیگمات کو نماز ادا کر نے کے لیے کرائی تھی۔ محل کا صحن وسیع و عریض رقبے پر مشتمل ہے یہ محل محکمہ اثار قدیمہ کے زیر نگرانی ہے جو اج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اودھ کے اخری بادشاہ نواب واجد علی شاہ کو 18 56 میں جب تخت شاہی سے معزول کر دیا گیا۔انہیں مغربی بنگال کے مٹیا برج بھیجا گیا اس کے بعد ان کی تربیت یافتہ دنیا کی پہلی خاتون فوج جسے( گرارہ پلٹن )کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جب سکندر باغ جنگ میں انگریزی فوج نے ہندوستانی افواج کی لاشوں کے انبار لگا دیے تھے۔ اس وقت امام بڑا شاہ نجف کے قرب میں ایک گھڑا نما پانی کا ٹینک بنا ہوا تھا جہاں انگریز فوج پانی پینے کے لیے جا رہے تھے جو بھی فوجی پانی کے پینے کے لیے جاتا واپس نہیں آتا ۔
وہیں مر جاتا یہ واقعہ کافی دیر تک چلتا رہا۔اس کا اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ اموات کی وجہ کیا ہے جب فوجیوں کا سربراہ اس واقعے کو سمجھنے سے قاصر رہا تو اس نے وہیں پر لگے ہوئے پیپل کے درخت پہ اپنی سپاہی سے دیکھنے کے لیے کہا لیکن اس نے کوئی بھی نتیجہ اخذ نہیں کیا۔ اس کے بعد جب وہاں سے تیر چلنے کی آہٹ آئی تو اس نے پیپل کی درخت پر گولیاں چلانے کے لیےحکم دیا۔ اس کے کچھ وقت بعد درخت سے ایک فوجی گرا بعد میں واضح ہوا کہ یہ خاتون تھیں۔جن کا مورخین نے نام عمدہ جبیں ذکر کیا ہے۔