اردو

urdu

ETV Bharat / state

حضرت غفران مآبؒ نے دین کی ترویج و اشاعت کے لیے خوب محنت کی: مولانا کلب جواد نقوی

Hazrat Ghufran MaabKalbe Jawad on Hazrat Ghufran Maab: شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نقوی نے کہا کہ حضرت غفران مآبؒ نے دین کی ترویج و اشاعت میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد ان کی یاد میں اس نئی عمارت میں ایک تحقیقی مرکز اور کتب خانہ قائم کیا جارہا ہے، تاکہ محققین اور دانشور حضرات اس سے استفادہ کرسکیں۔

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 5, 2024, 12:46 PM IST

Hazrat Ghufran Maab worked hard for the promotion and propagation of religion: Maulana Kalbe Jawad Naqvi
Hazrat Ghufran Maab worked hard for the promotion and propagation of religion: Maulana Kalbe Jawad Naqvi

لکھنؤ:مکتب امامیہ کے پہلے مجتہد سید دلدار علی غفران مآبؒ کی حیات اور ان کے مکتب فقہی وکلامی پر نور ہدایت فاؤنڈیشن کی جانب سے دو روزہ سمینار کا انعقاد عمل میں آیا۔ سمینار کے دوسرے دن سہ پہر کو چار بجے مقالہ خوانی کا آغاز ہوا۔ حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفران مآب کے طالب علم مولوی محمد عباس نے تلاوت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز کیا۔اس کے بعد ڈاکٹر حیدر مہدی کی نظامت میں مقالہ خوانی کا آغاز ہوا۔ اس سیشن میں دس افراد نے مکتب حضرت غفران مآب کی عظمت اور آفاقیت پر الگ الگ عناوین کے تحت مقالے پیش کیے۔
یہ بھی پڑھیں:

غفران مآب کی یاد میں سمینار و مجلس عزا کا اہتمام

مقالہ نگاروں میں مولانا تقی رضا برقعی، مولانا حیدر مہدی کریمی، مولانا مصطفیٰ رضا، مولانا سعید الحسن نقوی، مولانا علی ہاشم عابدی، جناب فیضان جعفر، جناب حیدر رضا، مولانا نوید عباس اور ڈاکٹر رضا عباس شامل ہیں۔ اس کے فوراً بعد مولانا اشرف الغروی نے حضرت غفران مآب کے علمی آثار کی عظمت اور اہمیت پر پرمغز تقریر کی۔ جلسہ کے آخر میں مولانا رضا حیدر زیدی نے تمام مقالہ نگاروں اور شرکائے جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔ رات میں 8 بجے اختتامی جلسہ منعقد ہوا۔ مولانا حیدر مہدی کریمی نے تلاوت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز کیا، اس کے بعد مولانا تقی رضا برقعی نے حضرت غفران مآبؒ کے علمی آثار اور فکری ابعاد وجہات پر کلیدی خطبہ پیش کیا۔

ان کے بعد مولانا رضا حیدر زیدی نے مکتب فقہی و کلامی لکھنؤ کی اہمیت اور افادیت پر تقریر کی۔ آخر میں صدر جلسہ مولانا سید کلب جواد نقوی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت غفران مآبؒ نے انتہائی کم وسائل کے باوجود نجف اشرف اور ایران کا سفر کیا تاکہ علماء اور فقہاء سے کسب فیض کیا جا سکے۔ جب وہ واپس ہندوستان آئے تو اس وقت مکتب امامیہ کے خد وخال واضح نہیں تھے اور اکثر لوگ یا تو تقیہ میں زندگی بسر کررہے تھے یا تصوف اور اخباریت کے زیر اثر تھے۔ حضرت غفران مآب نے ہر محاذ پر فکری اور علمی انداز میں مقابلہ آرائی کی اور مکتب امامیہ کی ترویج و اشاعت کے لیے پہلے اسکول کی بنیاد رکھی۔ اس اسکول نے برصغیر میں مکتب امامیہ کے عقائد اور تعلیمات کو عام کیا اور مایۂ ناز شاگرد اور علماء تیار کیے، جن کے علمی اور فکری آثار پر گفتگو کے لیے آج ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بہت جلد اس نئی عمارت میں ایک تحقیقی مرکز اور کتب خانہ قائم کیا جائے گا، تاکہ محققین اور دانشور افراد اس سے استفادہ کرسکیں۔ تقریر کے آخر میں مولانا کلب جواد نقوی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس قدر خراب موسم کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں علماء اور مومنین کا اس سمینار میں تشریف لانا اس بات کی دلیل ہے کہ اب لوگ مکتب حضرت غفران مآب کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ اختتامی جلسہ کی نظامت کے فرائض عادل فراز نے انجام دیے۔ مولانا سیف جائسی اور احمد عباس نقوی نے میزبان کی حیثیت سے تمام شرکائے جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔

سمینار کے اختتامی جلسہ میں مولانا شمس الحسن، مولانا تقی حیدر نقوی، مولانا رضا حیدر زیدی، مولانا غضنفر نواب، مولانا محمد حسین، مولانا اشرف الغروی نمائندہ آیت اللہ سید علی سیستانی، مولانا محمد حسن طہٰ فاؤنڈیشن، مولانا عقیل عباس، مولانا ارشد حسین عرشی، مولانا تہذیب الحسن، مولانا محمد موسیٰ، مولانا حیدر مہدی کریمی، مولانا تفسیر عباس، مولانا ابو الفضل عابدی، مولانا شباہت حسین، مولانا ڈاکٹر ارشد جعفری، مولانا ڈاکٹر ذیشان حیدر، مولانا سرتاج حیدر زیدی، مولانا ڈاکٹر ظفر النقی، مولانا شاہد کمال اور دیگر علمائے کرام نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details