اے ایم یو طلبہ کا احتجاج، ہٹائے گئے اسلامک حصہ کو شامل کرنے کا مطالبہ - AMU students protest
گیارہویں جماعت کے نصاب سے ہٹائے گئے اسلامک حصہ کو دوبارہ شامل کرنے کے حوالے سے آج علیگڑھ مسلم یونیورسٹی طلباء نے ایک جانب احتجاجی مارچ نکال کر باب سید پر احتجاج کیا تو دوسری جانب سینئر طلبہ کا ایک وفد وائس چانسلر سے ملنے پہنچا جن سے ملنے سے وائس چانسلر نے پھر انکار کردیا گیا۔
Published : May 9, 2024, 7:32 PM IST
علیگڑھ: علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) انتظامیہ نے گیارہویں جماعت کے داخلہ امتحان کے نصاب کے انڈو اسلامک حصہ سے اسلامک حصہ ہٹا دیا ہے جس سے جہاں ایک جانب یونیورسٹی طلباء میں بے چینی پائی جا رہی ہے تو وہیں ملی تنظیمیں اور سماجی کارکنان ہٹائے گئے اسلامک حصہ کو دوبارہ شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جہاں ایک جانب نصاب سے ہٹائے گئے اسلامک حصہ کو دوبارہ شامل کرنے, طلبہ یونین کے انتخابات سمیت دیگر 13 مطالبات کے ساتھ آج کیمپس میں طلباء نے باب سید تک احتجاجی مارچ کیا جس کے دوران نعرے بازی بھی کی گئی اور وائس چانسلر نعیمہ خاتون کے نام پندرہ نکات پر مبنی ایک میمورنڈم یونیورسٹی پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی کو دیا۔
وہیں دوسری جانب طالبات سمیت سینئر طلبہ کا ایک وفد وائس چانسلر سے ملنے انکے دفتر پہنچا جن سے ملنے سے وائس چانسلر نے پھر انکار کردیا گیا۔ جسکے بعد طلبہ نے اے ایم یو کنٹرلر پروفیسر مجیب اللہ زبیری اور پراکٹر سے ملاقات کر اپنا احتجاج درج کرایا اور اے ایم یو پراکٹر کو اس حوالے سے ایک میمورنڈم بھی دیا۔ واضح رہے کہ اس سلسلہ میں اے ایم یو کے سابق کورٹ ممبر محمد عمیر نے منگل کو وائسر چانسلر سے مل کر اس حوالے سے بات کرنے اور عرضداشت دینے کی کو شش کی تو انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا کہ وائس چانسلر نے اس حوالے سے کسی سے بھی بات کرنے اور میمورنڈم لینے سے منع کر رکھا ہے۔
اے ایم یوانتظامیہ کی جانب سے گیارہویں جماعت کے داخلہ امتحانات کے نصاب میں شامل انڈو اسلامک حصہ میں سے اسلامیات کے حصہ کو حذف کرنے کا معاملہ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کا اڑیل رویے کے باعث زور پکڑتا جارہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیوسٹی طلبہ نے اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ سے بات چیت کرنے کو شش کر، اس موضوع کی اہمیت کا احساس دلا کر دوباردہ نصاب میں شامل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انتظامیہ کے اڑیل رویہ اس معاملہ کو مذید بگاڑ کی صورت پیدا کررہا ہے۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا ہے کہ آخر کیوں اے ایم یو کی موجودہ انتظامیہ کو اسلامیات اس قدر نفرت ہو گئی ہے، انہوں نے کہا جس نبی کی سیرت دنیا کے مشعل راہ ہے، جو اسلام دنیا میں امن کے لئے اپنی شناخت رکھتا ہے اس سے اے ایم کے اعلیٰ عہدیدارن کو اس قدر نفرت کیوں ہو چکی ہے، انہوں نے کہا ہمارے اکابرین نے اس مقصد کے تحت نصاب میں اسلامیات کو شامل کیا تھا کہ ان کی دوربیں نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اے ایم یو میں سبھی مذاہب کے طلبہ علم کے زیور سے آراستہ ہونے آئیں گے، سبھی کے لئے اس درگاہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، ایسے میں دیگر مذہب کے جو طلبہ اے ایم یو میں داخلہ لیں گے، وہ کم از کم اسلام کے بنیای باتوں سے تو آگاہ رہیں گے، تاکہ انہیں یہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں کوئی پریشانی یا دشواری نہ ہو اور وہ مطمئن ہو کر علم حاصل کریں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور مل جل کر سماج میں رہ سکیں گے، لیکن انڈو اسلامک سے اسلامک حصہ کو اے ایم یو انتظامیہ نے حذف کر دیا اوپر سے یہ اس حوالے سے وائس چانسلر انتظامیہ کے اس فیصلہ کو لے کر کس قدر سنجیدہ ہیں اور اسکو نافذ رکھنے میں کس قدر بضد ہیں کہ انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف کسی کی ماننا تو درکنار، کسی کی سننے تک کو تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کا یہ رویہ ملت اسلامیہ کے سینے پر بجلی بن کر گرا ہے، جسکے نتیجہ میں ملت تشویش میں مبتلا ہو گئی ہے، ملت کے لئے لمحہ فکریہ ہے، یہ کام ایک ایسے دور میں ہوا ہے کہ جب اسلامی یا مسلم شناخت کے نام کی عمارتوں، شہروں علاقوں کے نام تبدیل کرنے کی مہم چل رہی ہے، ایسے میں یہ تبدیلی کافی حیران کن ثابت ہو رہی ہے۔ یونیورسٹی پراکٹر نے طلبہ سے پندرہ نکات پر مبنی میمورنڈم حاصل کرنے سے متعلق صحافیوں کو بتایا کہ آج طلباء نے احتجاجی مارچ نکالا تھا۔ ہٹائے گئے اسلامک حصہ کو دوبارہ شامل کرنے, طلبہ یونین کے انتخابات سمیت دیگر 13 مطالبات کا ایک میمورنڈم وائس چانسلر کے نام دیا ہے جس کو پہنچا دیا جائے گا۔