لکھنو:ندوۃ العلماء کے سینیئر استاد مولانا عتیق بستوی نے صدارت کی مہمان خصوصی کے طور پر مولانا بلال عبدالحی حسنی ندوی نے شرکت کی۔ان کے ساتھ سابق کارگزار وزیراعلی عمار رضوی اور انٹیگرل یونیورسٹی کے چانسلر سید وسیم اختر،انجمن اصلاح المسلمین کے سکریٹری اطہر نبی،فخر الدین علی احمد کمیٹی کے چیئرمین سید اطہر صغیر تورج زیدی سمیت شہر کی سرکردہ اور معزز شخصیات نے شرکت کر مولانا کی ہے تو خدمات پر روشنی ڈالی اس موقع پر ممتاز پی جی کالج میں ایک بڑے ہال کو مولانا سید رابع حسنی ندوی کے نام موسوم کیا گیا۔
ندوۃ العلماء کے ناظم اور ال انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری مولانا بلال عبدالحئی حسنی ندوی نے مرحوم مولانا سید رابع حسنی ندوی کی حیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مولانا ہمیشہ شہرت سے کوسوں دور رہے۔ بالکل سادی زندگی گزاری ان کے اندر تصنع دکھاوا بالکل نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اپنے مقصد کو پیش نظر رکھو اسلام کی اور دین کے کام کے لیے چاہے کتنے لوگوں کو عہدے سے نیچے انا پڑے اپنی شخصیات کو دفن کرنا پڑے۔ اپنی ذاتی مفاد کو پس پردہ ڈالنا پڑے لیکن اسلام کی کشتی بھنور میں نہ پھنسے دین کا کام ہوتا رہے۔
انہوں نے کہا مولانا نہایت ہی سادہ زندگی کے قائل تھے۔ ایک بار ایک بڑے جلسے میں شرکت کرنے گئے تو اسٹیج پر نہ بیٹھ کر کے عوام کے درمیان ہی بیٹھ گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے حضرت کو اسٹیج پر بٹھایا۔ اس طرح سے ان کے کئی واقعات ہیں جب انہیں مسلم پرسن اللہ بورڈ کے صدر کی حیثیت سے حیدراباد میں منتخب کیا جا رہا تھا تو وہ دانستہ طور پہ اس ہال سے باہر آگئے۔
انہوں نے کہاکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وہ برسوں صدر رہے۔عین وقت پر انہوں نے اہم فیصلے لیے ہیں جس سے قوم اور ملت کی بھلائی تھی۔ وہ سبھی لوگوں کے اتحاد کے قائل تھے چاہے کسی بھی مکتب فکر کے لوگ ہوں۔ کہتے تھے کہ اپس میں متحد رہو ایک ساتھ چلو اسی میں بھلائی ہے۔ مولانا رابع حسنی ندوی کی زندگی مولانا علی میاں ندوی رحمتہ اللہ کی زندگی کے مطابق ہی رہی بلکہ مولانا رابع صاحب ہمیشہ مولانا علی میاں کی زندگی کے پیش نظر ہی اپنی زندگی گزارتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت ایسا تھا جب مولانا علی میاں صاحب کا انتقال ہو گیا تو لوگوں میں بے چینی پھیلی اور یہ کہا گیا کہ اب ندوۃ کیسے چلے گا اس وقت مولانا رابع حسنی ندوی کو ندوۃ کا ناظم بنایا گیا اور ندوۃ العلماء کے لیے مولانا کے جو فیصلے جو خدمات ہوئے اسے لوگ دیکھ کر دنگ رہ گئے اور اسے رہتی دنیا تک ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مولانا کا کھانا پینا لباس انتہائی سادہ رہتا تھا انتقال سے کچھ دن پہلے جب وہ بریلی سے ندوۃ لائے گئے تو لکھنو کے بڑے ڈاکٹر ان کے آرام گاہ پر جمع ہو گئے تھے۔ لائبریری میں ان کی حالت یہ تھی کہ وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے تھے۔ لیکن جب لکھنؤ ائے اور ڈاکٹروں کی ٹیم کو دیکھا تو اللہ نے ان کے اندر ایک ایسی قوت پیدا کر دی کہ وہ بلند اواز میں ڈاکٹروں سے مخاطب ہوئے اور تقریر کرنا شروع کر دیے۔ ڈاکٹروں سے کہا کہ اپ لوگ دین کا بڑا کام کر سکتے ہیں اپ کے اندر دین کا درد ہونا چاہیے ذمہ داریوں کو سنبھالیے اور عوام کی خدمت کیجئے اور دین کے لیے کام کیجئے اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مولانا کی زندگی دین کے لیے کس قدر وقف تھی۔