حیدرآباد: مکسڈ مارشل آرٹس (MMA) زمانہ قدیم کا ایک ایسا کھیل ہے جس میں باکسنگ، ریسلنگ، جوڈو، جوجٹسو، کراٹے، موئے تھائی (تھائی باکسنگ) اور دیگر شعبوں کی تکنیکیں شامل ہیں۔ اس کھیل کو کیج فائٹنگ، نو ہولڈز بیرڈ (NHB) اور الٹیمیٹ فائٹنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یہ ایک جنگی کھیل ہے، اگرچہ ابتداء میں اس کھیل کو بغیر کسی قوانین کے کھیلا جا رہا تھا جس کی وجہ سے ناقدین اس کھیل کو خونی کھیل کہہ کر کافی تنقید کرتے اور اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کرتے۔
لیکن مکسڈ مارشل آرٹس نے کوئی پابندی نہیں لگائی یہاں تک کہ یہ کھیل 21ویں صدی کے اوائل میں دنیا کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا تماشائی کھیل بن گیا اور بہت سے ممالک اور تمام امریکی ریاستوں میں ای ایم اے ایونٹس کی منظوری بھی دے دی گئی۔
طالبان نے افغانستان میں مکسڈ مارشل آرٹس پر کیوں پابندی لگائی؟
افغانستان کی طالبان حکومت نے مکسڈ مارشل آرٹس (ایم ایم اے) کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی ہے۔ افغانستان کی اسپورٹس اتھارٹی کے مطابق یہ فیصلہ اس لی لیا گیا ہے کیونکہ یہ کھیل اسلامی قانون یا شریعت سے متصادم ہے۔ کیونکہ اس کھیل میں چہرے پر گھونسہ مارجاتا ہے جو کہ اسلام میں سخت منع ہے اور اس کھیل میں جان چلی جاتی ہے جو اسلام کے خلاف ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مارشل آرٹس افغانستان میں نوجوانوں کے مابین مقبول ترین کھیل ہے۔ وہاں پر مکسڈ مارشل آرٹس فیڈریشن کی بنیاد 2008 میں رکھی گئی تھی، جبکہ افغانستان فائٹنگ چیمپئن شپ (AFC) اور ڑرولی گرانڈ فائٹنگ چیمپیئن شپ (TGFC) نے درجنوں فائٹ بھی منعقد کیں۔ لیکن طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد سے ہی 2021 میں ان مقابلوں کو غیر قانونی قرار دے دیا جب طالبان نے "چہرے پر گھونسے" کی ممانعت کے لیے قانون سازی کی۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ 11 میں سے چار افغان جنہوں نے پیرس اولمپک گیمز کے مختلف ایونٹس میں حصہ لیا تھا وہ قومی یا پناہ گزین اولمپک ٹیموں میں سے اصل میں مارشل آرٹ کے ہی کھلاڑی تھے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد سے ہی خواتین کے کھیل پر پابندی لگا دی اور اس کے علاوہ خواتین کی آزادی اور حقوق کو بڑی حد تک محدود بھی کیا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کی تعلیم بھی متاثر ہوئی ہے۔ لیکن اب طالبان نے مردوں کے کھیلوں پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
اولمپک گیمز میں مکسڈ مارشل آرٹس کو ایک کھیل کے طور پر کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا؟
اولمپکس نے 1896 میں آغاز کے بعد سے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کے طور پر شہرت حاصل کی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شامل کھیلوں کی تعداد میں تبدیلی آتی رہی اور 2028 میں پہلی دفعہ کرکٹ بھی اس کھیل کا حصہ ہوگا لیکن ایک بڑا کھیل ایم ایم اے اس سے باہر رہ گیا ہے۔
مارشل آرٹس کا تصور صدیوں سے رائج ہے لیکن جدید مارشل آرٹس نوجوان لوگوں کے درمیان کافی مقبول ہے۔ اس کھیل میں باکسنگ، ریسلنگ، جوڈو اور دیگر شعبوں کی تکنیکیں شامل ہیں۔ اس تکنیک کے کھیلوں کو اولمپکس گیمز میں شامل کیا گیا ہے لیکن مارشل آرٹس کو نہیں کیا گیا۔
مکسڈ مارشل آرٹس (MMA) کو اولمپک کھیل کے طور پر بنیادی طور پر اس لیے تسلیم نہیں کیا جاتا کیونکہ اسے بہت زیادہ پرتشدد کھیل سمجھا جاتا ہے، اس کھیل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود چوٹ لگنے کے زیادہ خطرے اور اولمپک اقدار اور منصفانہ کھیل کے ساتھ ممکنہ تنازعات کے خدشات ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے کی جارحانہ نوعیت روایتی اولمپک جذبے کے مطابق نہیں ہے۔
کئی ایتھلیٹس جنہوں نے دوسرے شعبوں میں اولمپکس میں کامیابی حاصل کی وہ ایم ایم اے کے کامیاب کیریئر سے لطف اندوز ہوئے جن میں ڈینیئل کورمیئر، ہنری سیجوڈو، رونڈا روزی اور کیلا ہیریسن شامل ہیں۔
مکسڈ مارشل آڑس کی مختصر تاریخ
خیال کیا جاتا ہے کہ مکسڈ مارشل آرٹس کی ابتداء 648 قبل مسیح کے قدیم اولمپک کھیلوں سے ہوئی تھی، جب یونانی فوجوں کی جنگی تربیت کو قدیم یونان کا جنگی کھیل سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت اس کھیل کو پنکریشن (pankration) کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اس جنگی مقابلے میں ریسلنگ، باکسنگ اور اسٹریٹ فائٹنگ شامل تھی۔ اس وقت ایک جنگجو دوسرے جنگجو کو ہرطرح سے مارنے کی اجازت تھی، صرف آنکھیں کاٹنا اور باہر نکالنا منع تھا۔ ایک میچ اس وقت تک ختم نہیں ہوتا تھا جب تک کہ جنگجوؤں میں سے کوئی ایک شکست تسلیم کرلے یا وہ بے ہوش ہوجائے۔ کچھ مقابلے میں میچ کے دوران جنگجو مر بھی جاتے ہیں۔
اس وقت یہ خونی کھیل قدیم اولمپکس کے مقبول ترین کھیلوں میں سے ایک بن گیا تھا۔ 393 عیسوی میں رومی شہنشاہ تھیوڈوسیئس اول نے اولمپک کھیلوں پر پابندی لگا دی۔ جس سے ایک مقبول کھیل کے طور پر پنکریشن کا خاتمہ ہوا۔
تاہم، لڑائی کا یہ انداز 20ویں صدی کے آخر میں برازیل میں ویل ٹوڈو نامی جنگی کھیل کے ذریعے دوبارہ ابھرا اور پھر یہ کھیل اس قدر مقبول ہوا کہ تماشائیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے انہیں بڑے فٹ بال اسٹیڈیم میں منتقل کرنا پڑا۔
اب اس کھیل کو الٹیمیٹ فائٹنگ چیمپئن شپ (UFC) کہا جانے لگا۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو MMA ایونٹس کی سب سے بڑا پروموٹر بن گیا۔
یو ایف سی ایونٹس کا ابتدائی مقصد مختلف انداز کے جنگجوؤں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا تھا۔ اس کھیل کے ابتدائی قوانین میں نہ تو آنکھوں کو کاٹنا اور نہ ہی باہر نکالنا شامل تھا۔ اس کے علاوہ UFC نے اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ بغیر کسی پابندی والے کھیل کے طور پر کی۔ جس میں جان بھی چلی جاتی تھی۔
اس ظلم کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا، جن میں امریکی سینیٹر جان مکین جیسے سیاستدان بھی شامل تھے، جنہوں نے پنجرے کی لڑائی کو "انسانی کاک فائٹنگ" کہا اور اس کھیل پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا۔