لاہور: پاکستان کے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس کی تیاری کے دوران سہولیات کے فقدان کی وجہ کافی جدوجہد کی لیکن پاکستانی عوام نے طلائی تمغہ جیتنے کا جشن مناتے ہوئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ رات ایک بجے لاہور ائرپورٹ پر جمع ہزاروں پاکستانی عوام نے اپنے ہیرو کا شاندار استقبال کیا۔ اس سے قبل ایئرپورٹ پر ارشد ندیم کے طیارے کو واٹر کینین کے ذریعہ سلامی بھی دی گئی۔جیسے ممبئی فائر بریگیڈ نے گزشتہ ماہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے والی بھارتی کرکٹ ٹیم کے استقبال کے لیے کیا تھا۔
پیرس اولمپکس میں ارشد ندیم نے گولڈ میڈل جیتا
دفاعی اولمپک چیمپیئن نیرج چوپڑا سے پیرس اولمپکس میں بھی سونے کا تمغہ جیتنے کی امید تھی، لیکن ارشد ندیم نے مینز جیولین تھرو کے فائنل میں 92.97 کے زبردست تھرو کے ساتھ پیرس اولمپکس میں نہ صرف طلائی تمغہ اپنے نام کرلیا بلکہ اولمپک میں نیا ریکارڈ بھی بنا دیا۔ ارشد 90.57 میٹر کا اولمپک ریکارڈ توڑا دیا، جو 2008 کے بیجنگ گیمز میں ناروے کے اینڈریاس تھورکلڈسن نے بنایا تھا۔ اس کے علاوہ، ندیم اولمپکس کی تاریخ میں پاکستان کے پہلے انفرادی گولڈ میڈلسٹ بن گئے۔ جبکہ بارسلونا میں 1992 گیمز کے بعد یہ پاکستان کا پہلا تمغہ تھا۔
ارشد ندیم کا لاہور ایئرپورٹ پر شاندار استقبال
27 سالہ نوجوان اتوار کو جب رات کے وقت لاہور ایئرپورٹ پر پہنچا تو ان کا استقبال واٹر کینن کی سلامی سے کیا گیا۔ ایئرپورٹ پر عوام کا سیلاب بھی امڈ پڑا تھا جو بلند آواز میں پاکستان زندہ آباد کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ایئرپورٹ پر متعدد وفاقی وزراء سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے ارشد ندیم کا استقبال کیا۔
اس کے بعد وہ اپنے والد سے ملاقات کیے، انھوں نے اس کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈال کر بیٹے کو خوش آمدید کہا۔ ہجوم نے ارشد ندیم زندہ آباد، پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگا رہا تھا اور شہریوں نے اپنے ہیرو کو کندھوں پر بھا اٹھا لیا۔ اس کے بعد پاکستانی کھلاڑی کا کھلی بس میں پریڈ کرایا گیا۔ جہاں سے انھوں نے مداحوں کا شکریہ ادا کیا اور ہاتھ اٹھاکر عوام کے نعروں اور محبتوں کا جواب دیا۔
ارشد ندیم نے عوام کا شکریہ ادا کیا
ارشد ندیم نے لاہور ایئرپورٹ پر پہچنے کے بعد پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ قوم اور والدین کی دعاؤں سے اللّٰہ نے عزت دی۔ اس کے بعد انھوں نے عزت دینے پر قوم کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کامیابی کے پیچھے بہت لمبا سفر ہے، میڈل حاصل کرنے کے لیے دن رات محنت کی تھی۔