عوامی جمہوریہ چین کا حال یہ ہے کہ سبھی پڑوسی ممالک کے ساتھ اسکے تعلقات پر تناؤ ہیں۔ تائیوان، ویتنام، فلپائن، جاپان، جنوبی کوریا، انڈونیشیا اور یہاں تک کہ برونائی کی چھوٹی سلطنت سے بھی چین کو کسی نہ کسی معاملے پرر کشیدگی ہے۔ان تنازعات کے محرکات الگ الگ ہیں۔ کہیں جنوبی اور مشرقی چین کے سمندروں میں واقع جزائر اور سواحلی علاقوں کا مسئلہ ہے تو کہیں امتیازی اقتصادی علاقوں ( ایکسلیوژو اکنامک زونز) پر کشمیدگی ہے ۔ کئی جگہون پر تنازع یہ ہے کہ وہ علاقہ امریکہ کا حلیف کیوں ہے۔بیجنگ کا خیال ہے کہ یہ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے ہیں جو فلپائن اور جاپان کو چین کی مقرر کردہ نائن ڈیش لائن کے اندر اپنے دعووں کو چیلنج کرنے کا اعتماد فراہم کرتے ہیں۔ ویتنام کے ساتھ ایکسلیوژو اکنامک زونز پر تنازع ہے کیونکہ اس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ معدنیات سے مالامال علاقہ ہے۔
چین کے لیے، تائیوان کے ساتھ دوبارہ انضمام ہمیشہ سے ایک ترجیح رہی ہے۔ امریکہ کی طرف سے تائیوان کو مسلح کرنا اور اعلیٰ سطح کے امریکی سیاست دانوں کا اس کا دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ اپنی ون چائنا پالیسی پر عمل نہیں کر رہا ہے اور اس جزیرے کی آزادی کے دعوے میں حمایت کر رہا ہے۔ بیجنگ نے ہمیشہ جنوبی کوریا کو امریکہ کے علاقائی اتحاد میں ایک کمزور کڑی سمجھا ہے۔ تاہم، جیسے جیسے امریکہ اور جنوبی کوریا کے فوجی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، سیول کے ساتھ بیجنگ کے اختلافات بڑھتے ہیں۔ جن ممالک کے ساتھ بیجنگ کے اختلافات ہیں وہ بھارت کو اتحادی سمجھتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بھارت ان خطوں سے دور ہے اور انکا وہاں کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو لداخ تعطل کے بعد فروغ ملا کیونکہ اسوقت ہندوستان اور چین کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگیا۔ اسکی وجہ وہی پرانی کہاوت ہے کہ میرے دشمن کا دشمن، میرا دوست ہے۔
ویتنام کے ساتھ ہندوستان کے فوجی تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ بھارت ویتنام کے ساحل میں تیل کی تلاش میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ کواڈ کا رکن ملک ہونے کی حیثیت سے بھارت، جاپان کے ساتھ ساتھ فلپائن اور ویتنام کو براہموس میزائل فراہم کر رہا ہے۔ انڈونیشیا کی سبانگ بندرگاہ ہندوستانی بحریہ کے بحری جہازوں کو آپریشنل تبدیلی کے لیے دستیاب ہے۔ ہندوستان نے چین کے ساتھ تنازعہ والے ممالک کے ساتھ اپنے سیکورٹی تعاون کو تواتر کے ساتھ بڑھایا ہے۔ اپنے چھوٹے پڑوسیوں کے تئیں ہندوستان اور چین کی پالیسیاں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن جو چیز عالمی اصول بنی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک بڑا، مضبوط اور طاقتور پڑوسی ہمیشہ آس پاس کی چھوٹی قوموں کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کے ارادے چاہے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، اس کے چھوٹے پڑوسیوں مالدیپ، نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
مالدیپ کے چین کے حامی صدر محمد معزو کے حالیہ تبصرے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح ملک کی آبادی پر یہ باور کیا جارہا ہے کہ بھارت کے انکے تئیں مذموم عزائم ہیں۔ بھارت نے حال ہی میں مالدیپ کو تحفتاً دیئے گئے اپنے فضائی اثاثوں کی دیکھ ریکھ کیلئے غیر مسلح اہلکار روانہ کئے ۔ اس اقدام کے ایک ہفتے بعد مالدیپ کے ایک پورٹل نے صدر کے حوالے سے کہا کہ 10 مئی کے بعد انکے ملک میں کوئی ہندوستانی فوجی نہیں رہے گا یہاں تک کہ شہری لباس میں بھی نہیں۔ پورٹل نے معزو کے حوالے سے لکھا کہ وہ یہ بات انتہائی اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے درمیان مالدیپ کی حکومت نے چین کے ساتھ فوجی تربیت اور غیر مہلک آلات کے لیے 'مفت فوجی امداد' کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ترکی نے مالدیپ کی دفاعی افواج کو تربیت دینا شروع کر دی ہے۔دوسری جانب صدر معزو نے ملک کی روایات کے برعکس ہندوستان کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سرکاری دوروں کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے چین کا رخ کیا۔ معزو نے نئی دہلی پر غنڈہ گردی کا الزام بھی لگایا جس کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا، 'اجارہ داری قائم کرنے والے ملک (انگریزی میں لفظ بلی کا استعمال کیا گیا ) اس وقت 4.5 بلین امریکی ڈالر کی امداد نہیں دیتے جب ہمسایہ ممالک مصیبت میں ہوں۔' دوسری جانب ہندوستانی عوام نے رضاکارانہ طور پر مالدیپ کی سیاحت کا بائیکاٹ کیا ہے، جس کے نتیجے میں جزیرے کے عوام میں ہندوستان مخالف رویہ مین اضافہ ہوا ہے۔
سری لنکا میں حکومتیں یا تو بھارت نواز ہیں یا چین نواز۔ تاریخی طور پر، سنہالی برادری 1980 کی دہائی میں ایل ٹی ٹی ای کے عسکریت پسندوں کو تربیت دینے اور مسلح کرنے کا الزام بھارت پر لگاتی رہی ہے۔ جنگ کے دوران، جب بھارت نے سری لنکا کی فوج کو مسلح کرنے سے انکار کر دیا، یہ کام انکے لئے چین نے کر دکھایا۔ دونوں ممالک میں عدم اعتماد کی فضا برقرار ہے کیونکہ ہندوستان شمالی اور مشرقی سری لنکا میں تاملوں کے مطالبات کی حمایت کرتا ہے۔ کچھ سری لنکا والوں کا خیال ہے کہ بھارت ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ سنہ 2015 میں جب سری لنکا کے سابق صدر مہندا راجا پاکسے کا تختہ الٹ دیا گیا تو انہوں نے اسکا الزام بھارت کے سر تھوپ دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور ہندوستان دونوں نے انہیں گرانے کے لیے کھلے عام اپنے سفارت خانوں کا استعمال کیا۔ 2018 میں سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا نے انڈیا کے ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ پر ان کے قتل کی سازش کا الزام لگایا۔ دونوں الزامات تاہم کسی ثبوت کے بغیر عائد کئے گئے۔