سرینگر: سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے نہ صرف خواتین کے کاروباری ہونے کے امکانات کو بڑھایا ہے بلکہ اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ کی مدد سے انہیں اپنی انگلیوں پر بھی لایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف نوجوان مرد بلکہ خواتین بھی گھر میں رہ کر کامیابی سے کاروبار اور تجارت کر رہی ہیں. لاک ڈاون کے دوران آن لائن یا ڈیجٹیل کاروبار کا خیال اس وقت مزید تقویت پانے لگا جب گھروں میں آئے معاشی بحران میں خواتین کے تعاون کو بھی ضروری سمجھا جانے لگا۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آغاز کتنا بڑا یا چھوٹا ہے اہم بات ’شروع کرنے کی ہمت‘ ہے۔ باغات سرینگر کی رہنے والی 40 سالہ خاتون کاروباری ثنا آفتاب نے سوشل میڈیا کی مدد سے آن لائن بزنس شروع کیا۔ چند برس قبل اس نے ”موؤٹین صوپ“ کے نام سے قدرتی چیزوں سے تیار کردہ صابن اور بیوٹی پروڈیکس آن لائن ڈیلیوری شروع کی۔ ثنا نے اپنے آن لائن کاروباری کی شروعات محض ایک ہوم میڈ صوپ سے کی۔ ایسے میں ثنا نے گھر کی رسوئی میں استعمال ہونے والی چیزوں کو استعمال میں لاکر بنا کسی ملاوٹ کے "موؤٹین صوپ " کے نام سے صابن کے الگ الگ قسمیں تیار کیں اور انسٹاگرام اور فیس بک کے زریعے اپنے پراڈکٹ کی تشہر کا سلسلہ شروع کیا اور قلیل وقت میں ہی انہیں اپنے پراڈکٹ کے حوالے سے لوگوں کا بہتر اور مثبت ردعمل سامنے آیا۔ بڑھتی ڈیمانڈ کے بعد ثنا اب آرگینک صابن کے علاوہ کئی کاسمٹک پروڈیکس بھی تیار کرتی ہیں۔
ثنا آفتاب، این آئی ٹی گریجویٹ ہے اور انہوں نے ایم بی اے بھی کیا ہے۔ "تندرستی ہر ایک کے لیے" پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ثنا کے پراڈکٹس کے پہلے پہل چند ہی خریدار تھے لیکن آج کی تاریخ میں انہیں آڈرز نہ صرف جموں و کشمیر کے بلکہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی آتے رہتے ہیں۔ ثنا کہتی ہے کہ ڈیجیٹل مارکیٹ میرے کاروبار میں کافی مدد گار ثابت بہت ہوا۔ حالانکہ یہ آسان کام بھی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس علم ہے تو زیادہ مشکل درپیش نہیں آتے ہیں۔ درحقیقت سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی نے کاروبار کی نوعیت ہی بدل دی ہے۔ یہ چھوٹے شہر کی خواتین کے لیے ایک بہتر آپشن کے طور پر ابھرا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں مزید خواتین اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
بٹہ مالو سرینگر کے رہنے والے 30 سالہ شیخ عاصف اگرچہ مالی تنگی کی وجہ سے آٹھویں جماعت میں ہی اپنی پڑھائی کو چھوڑنا پڑا۔ تاہم اس نوجوان نے ویب ڈیزائننگ اور ویب ڈیولپمنٹ وغیرہ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد تھیمز انفوٹیک ویب ڈیزائننگ نامی کپمنی کی بنیاد ڈالی۔آج کی تاریخ میں آصف آن لائن کمپیوٹر تربیت دے رہے ہیں جو کسی وجہ سے اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ پائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سال 2019 کے بعد کئی لوگوں نے مجھ سے آن لائن کاروبار شروع کرنے کے لیے مشورہ طلب کیا۔ یہ وہیں افراد تھے جو ہمیشہ آن لائن کے بجائے آف لائن تجارت کو ہی بہتر اور فائدہ بخش سمجھتے تھے۔ آصف کا کہتے ہیں کہ وادی کشمیر میں پڑھے لکھے نوجوان آن لائن کاروبار کی طرف مائل ہورہے ہیں کیونکہ اس میں زیادہ انوسیٹ کرنے کی ضرورت نہیں پڑھتے ۔فوکس صرف پڈیکس کرنا پڑتا ہے جبکہ آرڈز آن لائن ہی موصول ہوتے اور ڈیلیوری کورئیر کے زریعے کرنے پڑتی ہیں ۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عورتیں زمانہ قدیم سے کاروبار کے میدان میں صنفی عدم مساوات کا شکار رہی ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کی بدولت سے خواتین نے تجارت کے کئی شعبہ جات پر مردوں کی برسوں پرانے مردوں کی اس اجارہ داری کو ختم کر دیا ہے۔ بیکنگ کا پیشہ ایک وقت میں جہاں مردوں کا پیشہ مانا جاتا تھا تاہم آج کل کئی خواتین اسی پیشہ کو اختیار کرتے ہوئے ماہانہ ہزاروں کما رہی ہیں
ثنا امتیاز کے بنائے ہوئے کیک نہ صرف زائقہ میں منفرد ہیں بلکہ ڈائیزن اور بناوٹ کے اعتبار سے بھی الگ اور جدا گانہ ہوتے ہیں۔انہیں روزانہ 4 سے 5 فارشی کیکس بنانے کے آرڈرز آتےہیں ۔برزلہ سرینگر کی رہنے والی 26 سالہ ثنا امتیاز نے کنفیکشنری یا ہوم بیکنگ کے کاروبار کی شروعات سال 2017 میں اپنے گھر کے ایک کمرے سے کی تاہم اب نہ صرف یہ خود روزگار کما رہی ہے بلکہ مزید 4 لڑکیوں کو بھی روزگار فراہم کر رہی ہے۔ "سیوٹ ٹیمٹیشن" کے نام سے ثنا اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنے بنائے کیکس کے مخلتف ڈیزائن اپ لوڈ کرتی ہیں جس سے انہیں شادی بیاہ، برتھ ڈے اور دیگر فرماشی کیکس کے آرڈز آتے ہیں۔