سرینگر (جموں و کشمیر): پارلیمانی انتخابات 2024 کے پہلے مرحلے میں صرف ایک ہفتہ ہی باقی رہ گیا ہے۔جموں و کشمیر میں سیاسی اسٹیج ایک ہنگامہ آرائی کے لیے تیار ہوا ہے، جس میں بڑے کھلاڑی لوک سبھا کی پانچ نشستوں پر لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں۔
خطہ میں نیشنل کانفرنس (این سی)، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)، انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کلیدی دعویدار کے طور پر ابھری ہیں اور ہر ایک اپنے اپنے گڑھ میں بالادستی کے لیے کوشاں ہے۔
روایتی طور پر نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو وادی کشمیر میں دب دبہ حاصل ہے، جب کہ بی جے پی اور کانگریس نے جموں میں اپنا تسلط برقرار رکھا ہے۔جیسا کہ انتخابی کارروائی کا آغاز ہوا،ادھمپور لوک سبھا سیٹ کے لیے 12 امیدواروں نے اس بار میدان میں چھلانگ لگائی، جب کہ جموں پارلیمانی سیٹ کے لیے 23 امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ ادھمپور سیٹ کے لیے بی جے پی کے سینئر لیڈر و ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر جتیندر سنگھ کانگریس کے چودھری لال سنگھ کے مد مقابل ہے، جب کہجموں سیٹپر کانگریس کے رمن بھلا اور بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ جگل کشور کے آمنے سامنے ہے۔
نیشنل کانفرنس نے میاں الطاف احمد کو اننت ناگ- راجوری سیٹ کے لیے بطور امیدوار نامزد کیا ہے، جس سے ایب اس سیٹ پر زبردست مقابلے ہونا طے ہوا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور ایک اور تجربہ کار سیاست دان، غلام نبی آزاد بھی اسی نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں، جس نے اس سیٹ میں انتخابی مقابلہ اور بھی سخت ہونے والا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے ابھی تک اس سیٹ کے لیے اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے۔ وہیں این سی نے وادی کی دو سیٹوں میں ابھی تک امیدواروں کا اعلان نہیں کیا۔ نیشنل کانفرنس نے جموں صوبے کی دونوں نشست ( ادھمپور اور جموں) پر کانگریس کو حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر پی ڈی پی کی جانب سے اننت ناگ- راجوری سیٹ کے لئے محبوبہ مفتی، سرینگر سیٹ سے وحيد الرحمن پرہ جبکہ بارہمولہ سیٹ سے میر فیاض کو میدان میں اترا ہے۔
جموں و کشمیر کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ پر غور کرتے ہوئے دیکھیں تو، تجربہ کار لیڈروں نے چیلنجوں اور کامیابیوں کے اپنے منصفانہ حصہ کا سامنا کیا ہے۔2014 میں پی ڈی پی کے طارق حمید قرہ نے نیشنل کانفرنس نے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو شکست دی،جبکہ 2019 میں محبوبہ مفتی بھی شکست سے ہمکنار ہوئی۔
اسی طرح، مرحوم مفتی محمد سعید، سینیئر بی جے پی لیڈر چمن لال گپتا، اور غلام نبی آزاد جیسے قدآور سیاست دانوں نے انتخابی سیاست کی اونچ نیچ کا تجربہ کیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو 2014 کے انتخابات میں پی ڈی پی کے طارق حمید قرہ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، جہاں قرہ نے 50.58 فیصد ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ ڈاکٹر فاروق کو 37.04 فیصد ووٹ ملے تھے۔