جموں:جموں و کشمیر میں خصوصی حیثیت کی بحالی پر جاری بحث نے مختلف برادریوں کے درمیان جذبات کو بھڑکا دیا ہے، خاص طور پر گورکھا، والمیکی اور مغربی پاکستانی پناہ گزینوں میں، جنہیں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد طویل عرصے کے بعد حقوق ملے۔ حالانکہ خصوصی حیثیت کے خاتمے نے انہیں نئے مواقع فراہم کیے، مگر انہیں صرف جزوی فوائد حاصل ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں شکر گزاری اور مایوسی ایک ساتھ نظر آتی ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے ان برادریوں کے رہنماؤں اور افراد سے بات چیت کی تاکہ ان کی جدوجہد اور دفعہ 370 کی وجہ سے ان کے مشکلات کی کہانیاں سامانے لائی جا سکیں۔
والمیکی سماج کی کارکن مینا گل کے لیے آرٹیکل 370 کے خاتمے نے انہیں اور ان کے خاندان کو طویل عرصے سے محروم رہنے والے حقوق فراہم کیے۔ مینا گل کا کہنا ہیں کہ دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد ہمیں یہاں شہریت ملی، جو ہمارے آباؤ اجداد کو کبھی نہیں ملی۔" انہوں نے بتایا کہ ان کے آباء و اجداد کو 1957 میں پنجاب سے جموں لایا گیا تھا تاکہ وہ صفائی کا کام کریں۔ " 67 سالوں تک، ہمیں باہر والوں کی طرح سمجھا گیا، باوجود اس کے کہ ہم نے لازمی خدمات فراہم کیں۔" ان کی آواز میں فخر اور مایوسی کا ملا جلا تاثر تھا۔ اگرچہ اب والمیکیوں کو شہریوں کا درجہ حاصل ہے، مگر انہیں ڈر ہے کہ خصوصی حیثیت کی بحالی کا فیصلہ ان کی نئی پہچان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے جس سے وہ ابھی آشنا ہوئے ہیں۔
اپنی برادری کی تاریخ پر غور کرتے ہوئے گل نے کہا کہ 2019 سے پہلے پی آر سی (مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ) کی عدم موجودگی میں والمیکی نوجوان جموں و کشمیر میں بنیادی ملازمتوں کے لیے درخواست تک نہیں دے سکتے تھے۔ "اگرچہ ہمیں ریاستی حکومت نے یہاں بلایا، مگر ہمیں کبھی بھی شہریوں کے حقوق نہیں دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ والمیکی برادری کے لیے پی آر سی کی عدم دستیابی انہیں ’باہر والے‘ کا درجہ دیتی تھی، جس کے باعث انہیں ملازمت، جائیداد اور سماجی فوائد تک محدود رسائی حاصل نہیں تھی۔
گل کی اپنی کہانی ان کی برادری کی جدوجہد کو نمایاں کرتی ہے۔ خاتمے سے پہلے، وہ روایتی کردار سے ہٹ کر کسی پیشے کو اپنانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ " آج میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں، جو چند سال پہلے تک ناممکن تھا،" تاہم، وہ کہتی ہیں کہ وعدہ شدہ فوائد کا صرف ایک حصہ ہی حاصل ہوا ہے۔ " اگر میں اندازہ لگاؤں تو ہمیں تقریباً 20 فیصد مواقع ہی ملے ہیں جن کی ہمیں امید تھی،" انہوں نے مزید کہا۔ ان کے لیے والمیکی برادری کی مکمل بحالی ایک ترجیح ہے، ایک مقصد جسے وہ امید کرتی ہیں کہ حکومت خصوصی حیثیت کی بحالی سے قبل مدنظر رکھے گی۔
والمیکی برادری کی ریاست کے صفائی اور فلاح و بہبود میں خدمات ذاتی قربانیوں کے ساتھ آئیں۔ "ہمارے خاندان آج بھی ان دو مرلہ زمین پر رہائش پذیر ہیں جو ہمیں اُس وقت الاٹ کی گئی تھی، اس میں کوئی توسیع نہیں ہوئی۔ ہم مزید زمین خرید نہیں سکتے تھے کیونکہ ہمیں مستقل رہائشی نہیں سمجھا جاتا تھا۔" انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی کہ بجائے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنے کے، وہ ان کی برادری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو اہمیت دے۔
دوسری جانب، مغربی پاکستانی پناہ گزین ایسوسی ایشن کے صدر لبھا رام گاندھی کہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے نے ان کی برادری کو، جسے 1947 سے لے کر 5 اگست 2019 تک دوسرے درجے کی حیثیت دی گئی تھی، ووٹ دینے کا حق اور دیگر شہری فوائد حاصل کرنے کا موقع دیا۔ مغربی پاکستانی پناہ گزین جموں، کٹھوعہ اور راجوری اضلاع میں آباد ہوئے، مگر دہائیوں تک انہیں ’باہر والوں‘ کے طور پر دیکھا گیا، حتیٰ کہ انہیں بنیادی شہریت کے حقوق بھی نہیں دیے گئے۔
گاندھی کے لیے، آرٹیکل 370 کے خاتمے نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس جاری کیے ہیں، جس سے مغربی پاکستانی پناہ گزینوں کو جموں و کشمیر میں مساوی حقوق کا دعویٰ کرنے کا حق ملا ہے، اور انتظامیہ نے 1947 سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے مزید زمین کی الاٹمنٹ اور معاوضے کا وعدہ کیا ہے۔ "ہمارے لوگوں نے 70 سال سے زیادہ خاموشی سے مشکلات سہیں،" انہوں نے کہا۔ "اگرچہ ہم نے بہتری دیکھی ہے، مگر کچھ معاملات جیسے زمین کا مسئلہ ابھی بھی زیر التواء ہیں،" انہوں نے مزید کہا، اس امید کا اظہار کیا کہ انتظامیہ ان وعدوں کو پورا کرے گی بغیر کسی تقسیم کرنے والی پالیسی کو دوبارہ نافذ کیے۔