کشمیری باشندے اب بھی تربوز سے دور کیوں سرینگر (جموں کشمیر) :گزشتہ برسوں کے دوران ماہ رمضان المبارک میں روزہ دار افطار کے وقت تربوز کا کثرت سے استعمال کرتے تھے، تاہم ایک ڈاکٹر کے ٹویٹ نے کشمیر کی بیشتر آبادی کو رواں برس صیام میں تربوز سے دور رکھا، اور تربوز تنازعہ شروع ہوا جس کے سبب کشمیر کی کثیر آبادی کے لیے ماضی کے برعکس امسال یہ میوہ ’’ممنوعہ‘‘ بنا۔
’تربوز تنازعہ‘ کشمیر میں ایک ڈاکٹر کی جانب سے سماجی رابطہ گاہ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر کیے گئے ریمارکس سے شروع ہوا جس میں ڈاکٹر نے لکھا: ’’اس وقت تربوز کا سیزن نہیں، اس رمضان تربوز سے دور رہیں اور کیمیلز سے خود کو محفوظ رکھیں۔‘‘ ڈاکٹر نے ٹویٹ میں دبے الفاظ میں دعویٰ کیا کہ قبل از وقت کیملز کی مدد سے تیار کیے جانے والے یہ تربوز خطرناک کیمکلز کے سبب سرطان کے باعث بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر کے ایس ریمارک کے بعد لوگوں نے تربوز کھانے سے گریز کیا، وہیں میوہ تاجرین کو اس سے سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ سرینگر کے مضافاتی علاقہ پارمپورہ میں واقع وادی کشمیر کی سب سے بڑی میوہ منڈی میں گزشتہ رمضان تربوز کا یومیہ کاروبار پانچ کروڑ روپئے کا تھا، تاہم ایک ٹویٹ کی وجہ سے آج اس کاروبار میں شدید گراوٹ آئی ہے۔
سوشل میڈیا کے گرم بازار میں تربوز افواہوں کا شکار ہوا اور یہ میوہ دکانوں سے تقریباً غائب ہی رہا۔ ادھر، جموں کشمیر انتظامیہ کا فوڈ سیفٹی محکمہ حرکت میں آیا اور اور تربوز کی ٹیسٹنگ شروع کی۔ اس محکمہ کے افسران نے بازاروں میں ہی تربوزے کی جانچ شروع کی تاکہ لوگوں کو یہ بھروسہ دیا جائے کہ اس میوے میں کوئی ملاوٹ نہیں ہے۔ تاہم فوڈ سیفٹی محکمہ کی یقین دہانی کے باجود بھی تربوزہ پر اب بھی شکوک و شبہات برقرار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:تربوز کا استعمال مضر صحت نہیں، فوڈ اینڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ