سرینگر :جموں کشمیر کی نو منتخب حکومت کی پہلی کابینہ میٹنگ میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے مطالبے پر ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور لداخ کو ایک الگ یونین ٹیریٹری بنایا گیا، جب کہ دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت/نیم خودمختاری حاصل تھی۔ اس وقت سے یونین ٹیریٹری براہِ راست مرکزی حکومت کے زیر انتظام رہی اور لیفٹیننٹ گورنر نے یہاں مرکز کی نمائندگی کی۔
عمر عبداللہ، یونین ٹیریٹری کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے، جس سے منتخب حکومت کا جموں کشمیر یو ٹی میں آغاز ہوا۔ جموں و کشمیر میں جون 2018 میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) - بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت گرنے کے بعد سے صدر راج نافذ تھا۔ لیکن نیشنل کانفرنس (این سی) کی جانب سے حالیہ منعقد ہوئے اسمبلی الیکشن میں 42 نشستیں جیتنے کے بعد اور اتحادی کانگریس کی سات اور پانچ آزاد اراکین کی حمایت کے ساتھ، عمر عبداللہ نے حکومت بنانے کا دعویٰ کیا اور 11 اکتوبر کو صدر راج ختم کر دیا گیا۔
عمر عبداللہ کی بحیثیت وزیر اعلیٰ حلف برداری کے دوسرے ہی دن، عمر عبداللہ کی کابینہ نے یونین ٹیریٹری کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کی قرارداد منظور کی۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس مسودے کو وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے پیش کریں گے۔ لیکن قانونی طور پر یہ قرارداد مرکز پر لازم نہیں ہے اور اسے محض ایک علامتی قدم سمجھا جاتا ہے، جو حکومت کے ایجنڈے کی نمائندگی کرتا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں ریاستی حیثیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف آواز اٹھانے اور اس کی بحالی کے لیے جد و جہد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یونین ٹیریٹری کا نظم و نسق جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ (J&K Reorganisation Act ) کے تحت جاری و ساری ہے، جس کی رو سے منتخب حکومت کے اختیارات محدود ہیں۔ ایک سابق اعلیٰ قانونی افسر، جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ کابینہ کے فیصلے صرف ان امور پر لاگو ہوتے ہیں جو حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
آفسیر کا کہنا ہے کہ ’’یہ فیصلہ مرکز پر لازم نہیں ہے۔ یہ ان کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اسے مانیں یا نہ مانیں، لیکن یہ ایک حوالہ کے لئے یادگاری نقطہ رہے گا اور اس کی سیاسی اور علامتی اہمیت ہوگی۔ اس کا مقصد مرکز پر ریاستی حیثیت کی بحالی کے وعدے کی پیروی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے، لیکن حتمی فیصلہ مرکز کے پاس ہے۔‘‘
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ اجلاس کے ساتھ ساتھ دیگر مواقع پر بھی جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی دفعہ 370 کی منسوخی کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ریاستی حیثیت بحال کرنے کا آرڈر جاری کیا تھا، تاہم کورٹ نے کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں کیا۔