سری نگر: جموں و کشمیر میں 10 سال کے طویل وقفے کے بعد اسمبلی کی 90 سیٹوں پر انتخابات کے ساتھ پانچ دیگر ارکان اسمبلی کی نامزدگی کا معاملہ سرخیوں میں ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) وزیر اعلیٰ یا یونین ٹیریٹری کی منتخب حکومت سے مشورہ کیے بغیر اسمبلی کی رکنیت کے لیے پانچ افراد کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
جے اینڈ کے ری آرگنائزیشن ایکٹ کا سیکشن 15 ایل جی کو دو خواتین ممبران کو قانون ساز اسمبلی میں نامزد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ سابقہ جموں و کشمیر کے ریاستی آئین میں بھی یہ شق موجود تھی لیکن اس میں گورنر کو منتخب حکومت کی سفارش پر نامزدگی کرنی ہوتی تھی۔ باقی تین نامزد ارکان میں کشمیری مہاجر پنڈت اور پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے مہاجرین شامل ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں پارلیمنٹ میں ایک ترمیم کے ذریعہ جموں و کشمیر اسمبلی کے لیے پانچ ارکان کی نامزدگی کو منظوری دی گئی۔ ان نامزدگیوں کے بعد ارکان اسمبلی کی کل تعداد 95 ہو جائے گی۔
اسمبلی کی سیٹوں اور ارکان کل تعداد
واضح رہے کہ جموں و کشمیر اسمبلی میں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) کی 24 خالی نشستیں بھی شامل ہیں۔ ان چوبیس اسمبلی حلقوں کو ملا کر کل 114 سیٹیں ہو جاتی ہیں۔ ان میں پانچ ارکان اسمبلی نامزدگیوں کے ساتھ ہی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 119 ہو جائے گی۔ اگر حکومت بننے سے پہلے نامزد امیدواروں کا اعلان اور ان کی حلف برداری ہوجاتی ہے تو حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد 46 سے بڑھ کر 48 ہو جائے گی۔
نامزدگی کا عمل
جموں و کشمیر میں اضافی ارکان اسمبلی کی نامزدگی کا عمل پڈوچیری کی نقل ہے جہاں ایل جی ریاستی حکومت سے مشورہ کیے بغیر اسمبلی میں تین ایم ایل اے کی سفارش کر سکتا ہے۔ پڈوچیری کی سابقہ ایل جی کرن بیدی کی جانب سے ارکان اسمبلی کی نامزدگی کو مدراس ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ میں سال 2017-2018 کے دوران چیلنج کیا گیا تھا۔ نامزدگی کو چیلنج کرنے کی بنیاد یہ تھی کہ مرکز نے ایم ایل اے کو نامزد کرنے سے پہلے ریاستی حکومت سے مشورہ نہیں کیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اسے برقرار رکھا اور اس میں کوئی غیر قانونی نہیں پایا۔