جموں:جموں کشمیر کی تاریخ میں دربار موو (Darbar Move) روایت کو ریاست کے ڈوگرہ دور حکمرانی میں بھی اہمیت حاصل رہی اور 1947 میں بھارت کے ساتھ ریاست کے انضمام کے بعد یہ روایت 2021 تک برقرار رہی۔ دربار موو کی روایت 1872 میں مہاراجہ رنبیر سنگھ نے شروع کی تھی، جو ریاست جموں و کشمیر کے پہلے ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے تیسرے فرزند تھے۔ رنبیر سنگھ نے موسمی شدت سے بچنے کے لیے گرمیوں میں سرینگر اور سردیوں میں جموں کو دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔
دربار موو کیا ہے؟
دربار موو ایک صدی سے بھی زیادہ قدیم روایت تھی جس کے تحت ریاستی حکومت چھ ماہ سرینگر اور چھ ماہ جموں میں کام کرتی تھی۔ جموں و کشمیر جو پہلے ایک ریاست تھی اور اب مرکز کے زیر انتظام کا علاقہ ہے، کے دو دارالحکومت تھے: جموں (سرمائی دارالحکومت) اور سرینگر (گرمائی دارالحکومت)۔ دربار موو کے دوران تقریباً دس ہزار سرکاری ملازمین فائلوں، کمپیوٹرز، فرنیچر اور دیگر سامان کے ساتھ جموں سے سرینگر اور سرینگر سے منتقل ہوتے تھے، جس کے لیے کئی ٹرکوں کی ضرورت پڑتی اور اس عمل پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے تھے۔
دربار موو کی وجہ
دربار موو کی دو بڑی وجوہات تھیں: موسمی حالات اور ملازمین کی ترجیحات۔ جموں یا سرینگر میں تعینات کئی ملازمین اپنے علاقے میں کام کو ہی ترجیح دیتے ہیں، جس سے کسی ایک جگہ دارالحکومت کا قیام مشکل ہو جاتا ہے۔ اس روایت کا خاتمہ ملازمین کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔
دربار موو کی اہمیت
جموں و کشمیر کے موسمی حالات نے اس روایت میں اہم کردار ادا کیا۔ سرینگر میں سردیوں کا موسم انتہائی سرد ہوتا ہے جبکہ جموں میں گرمی ناقابل برداشت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس روایت کو برقرار رکھا گیا، لیکن جیسے جیسے دربار موو مہنگا اور پیچیدہ ہوتا گیا، اس پر مخالفت بھی بڑھتی گئی۔
دربار موو 2021 کا فیصلہ
سال 2021 میں ایک اہم انتظامی فیصلے کے تحت اس روایت کو سرکاری طور پر ختم کر دیا گیا۔ اس وقت حکومت کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے سالانہ 200 کروڑ روپے کی بچت ہو گی۔ اس روایت کو ختم کرنے کے بعد سرکاری دفاتر نے اپنے موجودہ مقامات سے کام جاری رکھا۔ اس فیصلے پر نیشنل کانفرنس (این سی)، کانگریس، پیپلز کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے اعتراض کیا اور اس کی بحالی کا مطالبہ کیا۔