ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثہ میں ہلاکت کے بعد بڈگام میں تعزیتی جلوس نکالا گیا (ETV Bharat Urdu) بڈگام: وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام میں آج ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثہ میں ہفتہ کو موت واقع ہونے پر بڈگام اور ماگام سمیت ضلع کے مختلف مقامات پر تعزیتی جلوس نکالے گئے۔ قصبہ ماگام میں بھی اس ضمن میں ایک بڑی ریلی نکالی گئی، جس میں لوگوں کی ایک خاصی تعداد کی شرکت دیکھنے کو ملی۔ یہ جلوس ماگام گلمرگ روڑ پر چلتے ہوئے آخر کار امام باڑہ میں ختم ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:
ایران کے صدر کی وفات پر ملی تنظیموں کا اظہارِ غم - IRAN PRESIDENT HELICOPTER CRASH
اس موقع پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ ہم نے یہ جلوس تعزیت پرسی کے لیے نکالا ہے۔ چونکہ اسلامک ریپبلک آف ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کی ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں موت واقع ہو گئی ہے، اس واقعہ کی تمام اعلیٰ ایرانی ایجنسیاں جانچ پڑتال کر رہی ہے کہ آیا یہ ایک قدرتی حادثہ ہے یا یہ کسی غیر ملک کی کوئی سازش کے تحت کیا گیا ہے، ابھی ہم اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ تاہم ہم ایران کی عوام کے ساتھ اس غم کے موقع پر شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اس ضمن میں حکومت ہند نے بھی قومی پرچم کو جھکا کر یک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ہیلی کاپٹر حادثہ میں ایرانی صدر اور وزیر خارجہ جاں بحق، سپریم لیڈر نے 5 روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا - IRAN PRESIDENTS HELICOPTER CRASH
بھارت کی ایران سے اظہار یکجہتی، ملک میں ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان - India Solidarity With Iran
جلوس میں شرکت کرنے والے ایک شخص نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تمام مسلم ممالک میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ صدر ابراہیم رئیسی باطل کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے والے ایک انتہائی مضبوط شخصیت ہیں اور وہ مظلوموں کی طرف داری کرتے تھے۔ چاہے وہ کسی بھی قوم و مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے یو این (یونائٹیڈ نیشنز) میں بھی قرآن کی روشنی میں اپنی آواز بلند کی۔ لہٰذا ہم ان کی موت پر غم گسار ہیں اور ایران کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس عظیم غم میں شاملِ حال ہیں۔
یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کی ہفتہ کو ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں موت واقع ہو گئی جس میں ان کے ساتھ ملک کے وزیر خارجہ بھی شامل تھے، ابتدا میں اس حادثہ کی وجہ خراب موسم اور گھنے بادلوں کو بتایا گیا ہے، تاہم ایران کے تمام انویسٹی گیٹو ایجنسیاں اس حادثہ کی تحقیقات میں لگی ہیں کہ کیا یہ ایک قدرتی طور پر ہونے والا حادثہ تھا یا پھر کسی غیر ملک کا اس میں ہاتھ ہیں۔