خان یونس، غزہ کی پٹی: اسرائیلی جارحیت سے کھنڈر میں تبدیل ہو چکے غزہ کو کڑاکے کی سردی نے اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ 14 ماہ کی تباہ کن جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں میں سے بیشتر کو آندھی، سردی اور بارش سے خود کو بچانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔
امدادی کارکنوں اور رہائشیوں کے مطابق، غزہ میں کمبل اور گرم کپڑوں کی کمی ہے۔ آگ لگانے کے لیے تھوڑی سی لکڑی میسر ہے۔ جو خاندان پیوند زدہ خیموں میں رہ رہے ہیں وہ مہینوں کے بھاری استعمال کے بعد تیزی سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔
جنوبی شہر رفح سے ساحلی علاقے مواسی کی طرف بے گھر ہونے والی شادیہ ایادہ کے پاس اپنے آٹھ بچوں کو اپنے نازک خیمے کے اندر سردی کے ستم سے بچانے کے لیے صرف ایک کمبل اور ایک گرم پانی کی بوتل ہے۔
شادیہ ایادہ نے کہا کہ، جب بھی موسم کی پیشین گوئی میں بارش اور آندھی کی خبر ہوتی ہے تو ہم خوفزدہ ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمارے خیمے تیز ہوا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ایادہ کو ڈر ہے کہ سردی کی وجہ سے اس کے بچے بیمار ہو جائیں گے۔
اقوام متحدہ نے غیر معمولی عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزار رہے لوگوں سے متعلق کہا ہے کہ، یہ لوگ شاید موسم سرما میں زندہ نہ رہ سکیں۔ اقوام متحدہ نے منگل کو ایک اپڈیٹ میں کہا کہ کم از کم 945,000 لوگوں کو موسم سرما کے نقصانات سے بچانے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے، جو غزہ میں مہنگی ہو گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کو یہ بھی خدشہ ہے گزشتہ موسم سرما کی طرح اس مرتبہ بھی غذائی قلت کے درمیان متعدی بیماریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔