یروشلم:13 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں ڈرون اور میزائل داغے، جس کے بعد اسرائیل نے ایران کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے، خطے میں جنگ کو مزید وسعت دینے کا خطرہ مول لیا ہے۔
اسرائیلی حکام نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کب اور کیسے حملہ کر سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ کثیر محاذ جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کررہے ہیں، یہ واضح ہے کہ ایرانی سرزمین پر اسرائیل کا براہ راست حملہ بڑے نتائج کا باعث بنے گا۔
اسرائیل غزہ میں حماس کے خلاف اپنی جنگ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، اور پہلے ہی لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے عسکریت پسندوں سے جھڑپوں میں الجھا ہوا ہے، ایسے میں امریکہ نے اسرائیل کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو سے کہا ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف کسی جارحانہ کارروائی میں حصہ نہیں لے گا، اور صدر نے نتن یاہو کو واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ "ہمیں خطرات کے بارے میں احتیاط اور حکمت عملی سے سوچنا ہوگا"۔
ایران کے خلاف انتقامی کارروائی سے متعلق اسرائیل کی جنگی کابینہ نے گزشتہ دو دنوں تک اپنے اگلے اقدام پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ایران کے حملوں کو اسرائیل کے کامیاب فضائی دفاع نے ناکام بنا دیا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اردن جیسے بین الاقوامی شراکت داروں کے اتحاد نے مؤثر طریقے سے اپنا دفاع کرنے میں اسرائیل کی مدد کی۔ اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ 99 فیصد ہتھیاروں کو روک لیا گیا، کچھ ہی اسرائیلی فضائی حدود میں پہنچ پائے۔ حملے سے صرف معمولی نقصان ہوا اور ایک شخص اور ایک 7 سالہ لڑکی زخمی ہوئے۔
اس اتحاد نے امریکی سینٹرل کمانڈ کی قیادت میں کام کیا، جو خطے میں امریکی افواج کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ اسرائیل اور اعتدال پسند عرب ممالک کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔
اردن، ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی زیادہ تر فلسطینیوں کی حامی ہے، لیکن غزہ جنگ پر اسرائیل کے ساتھ اختلافات کے باوجود، اس نے ایران کے حملے کو ناکام بنانے میں اسرائیل کی مدد کی۔
یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مدد علاقائی پاور ہاؤس سعودی عرب سے آئی ہو، جس کے اسرائیل کے ساتھ سرکاری تعلقات نہیں ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے جاری کیے گئے نقشے میں کئی ایرانی میزائلوں کو سعودی فضائی حدود سے پرواز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
اسرائیل محتاط رہا ہے کہ وہ اپنے عرب شراکت داروں کی شناخت نہ کرے، لیکن اسرائیلی فضائیہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس مشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کو میزائل مار گرانے کے لیے اسرائیل کے مشرق میں پرواز کرنے کی ضرورت ہے۔
تل ابیب کے تھنک ٹینک، انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے سینئر محقق یوئل گوزانسکی نے کہا کہ اگر اسرائیل تنہا کام کرتا ہے تو اس خیر سگالی کو خطرے میں ڈال دے گا۔ انہوں نے کہا کہ "اسرائیل کو ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قرض حاصل کرنا چاہیئے اور بڑے پیمانے پر جوابی حملہ نہ کرتے ہوئے کریڈٹ کو ضائع کرنے سے روکنا چاہیئے۔"
عرب ریاستوں کی خاموش حمایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایران پر جوابی حملے میں اسرائیل کی مدد کریں گے۔ واشنگٹن میں قائم سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈینیئل بائیمن کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ممالک ایران کو پسند نہیں کرتے ہیں، لیکن وہ اسرائیل کی ایران کے خلاف کارروائیوں کو دیکھنے کے لیے بے چین بھی نہیں ہیں۔
ایرانی سرزمین پر ایک بڑی انتقامی کارروائی سے پورے پیمانے پر علاقائی جنگ شروع ہونے کا خطرہ ہے، اس لیے کسی بھی ردعمل سے پہلے اسرائیل کو باریک بینی سے اپنے جوابی کارروائی کے بعد کے نتائج پر غور کرنا چاہیئے۔
ایرانی سرزمین پر براہ راست حملے کا نتیجہ یقینی طور پر بڑا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جس میں سے ایک حزب اللہ کی جانب سے جوابی کارروائی ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ لبنانی گروپ کے پاس حماس سے کہیں زیادہ طاقتور ہتھیار ہیں، لیکن اس نے اب تک ہمہ گیر جنگ میں کھل کر شامل ہونے سے گریز کیا ہے۔
حزب اللہ کے ساتھ جاری تبادلوں کی وجہ سے شمالی اسرائیل میں تقریباً 60,000 شہری پہلے ہی اپنے گھر خالی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ شدید جنگ ممکنہ طور پر انہیں گھر سے زیادہ وقت دور رہنے کے لیے مجبور کر سکتی ہے۔
براہ راست تنازعہ اسرائیل کی فوج کی توجہ غزہ سے ہٹا دے گا اور اسرائیل کی جنگ سے پہلے ہی سے کمزور ہوتی جارہی معیشت کو مزید نقصان پہنچائے گا۔ ایرانی سرزمین پر کوئی بھی بڑا حملہ جنگ کے لیے متزلزل امریکی حمایت کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دو امریکی عہدیداروں نے کہا کہ اسرائیل نے ابھی تک امریکہ کو یہ نہیں بتایا ہے کہ وہ کس طرح کی جوابی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سفارتی بات چیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اشارہ دیا ہے کہ وہ جو بھی کرے گا وہ پہلے سے کشیدہ علاقائی سلامتی کی صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے ڈیزائن کیا جائے گا۔ اسرائیل کا یہ بیان محدود کارروائی کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جس میں پورے خطے میں ایرانی اتحادیوں پر حملہ یا ایران پر سائبر حملہ ہو سکتا ہے۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے رکن تمر ہرمن کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اسرائیلی اتحادیوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کسی نہ کسی قسم کے فوجی ردعمل کے حق میں ہیں۔ ہرمن نے کہا کہ، "اگر یہ بغیر کسی مشاورت یا اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر کیا جاتا ہے تو اسرائیل کی حمایت بہت کم ہو جائے گی۔
اسرائیل کی فوج خطے کی دیگر فوجوں سے بہت زیادہ برتر ہے۔ اس کے پاس ہائی ٹیک ہتھیاروں کی ایک رینج ہے، جس میں ایف 35 لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔ یہ طیارے طویل فاصلے تک گولہ باری کو لانچ کر سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خطے میں ایران یا اس کے اتحادیوں پر براہ راست حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ہتھیاروں کے ماہر اور ریسرچ فیلو فابیان ہنز نے کہا کہ ایرانی فضائیہ کا دور سے بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فورس 1980 اور 90 کی دہائی کے طیاروں کے مجموعے پر مشتمل ہے، جن میں سے کچھ شاہ محمد رضا پہلوی کے دور کے ہیں۔ شاہ محمد رضا پہلوی نے 1979 تک ایران پر حکومت کی تھی۔ فابیان نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کے فضائی دفاعی نظام کی حد کا بھی اندازہ نہیں ہے۔ فابیان نے مزید کہا کہ ایران کی بہت سی میزائل سائٹس اور جوہری تنصیبات زیر زمین ہیں، جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنانا مشکل ہے۔ اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کے لیے خلیجی عرب ممالک کے معاہدے کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے، جس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: