تل ابیب، اسرائیل: غزہ میں جنگ بندی کی بات چیت تعطل کا شکار تھی ایسے میں بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے حماس کا ایک وفد ہفتے کے روز قاہرہ پہنچا ہے۔ مصر کے سرکاری میڈیا نے جنگ بندی کے مذاکرات میں قابل ستائش پیش رفت کی اطلاع دی ہے۔ لیکن اسرائیل نے مذاکرات کے لیے اپنا کوئی وفد مصر نہیں بھیجا اور ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے رفح پر حملہ کرنے کے عزم پر زور دیتے ہوئے جنگ کے مکمل خاتمے کے امکانات کو مسترد کردیا۔
تقریباً 7 ماہ سے جاری جنگ کو روکنے کے لیے اسرائیل اور حماس پر معاہدے تک پہنچنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
مصری اور امریکی ثالثوں نے حالیہ دنوں میں سمجھوتے کے آثار کی اطلاع دی ہے، لیکن جنگ بندی کے معاہدے کے امکانات اس اہم سوال کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں کہ آیا اسرائیل عسکریت پسند گروپ حماس کو تباہ کرنے کے اپنے مقررہ ہدف تک پہنچے بغیر جنگ کے خاتمے کو قبول کرے گا۔
مصر کے سرکاری القاعدہ نیوز ٹی وی چینل نے کہا کہ بہت سے متنازعہ نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ لیکن چینل نے اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ واضح رہے، حماس نے جنگ کے مکمل خاتمے اور غزہ سے تمام اسرائیلی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک سینیئر اسرائیلی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جاری مذاکرات پر بات کرتے ہوئے جنگ کے مکمل خاتمے کے امکانات کو مسترد کر دیا۔ اہلکار نے کہا کہ اسرائیل رفح حملے کے لیے پرعزم ہے اور وہ کسی بھی صورت میں یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے تحت جنگ کے خاتمے پر رضامند نہیں ہوگا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ بیان وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کی طرف سے دیا گیا تھا، کیونکہ ان کی سخت گیر کابینہ کے ارکان رفح پر حملے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مصری ثالثوں نے حماس کو جو تجویز پیش کی تھی اس میں تین مراحل کا عمل طے کیا گیا ہے جس میں فوری طور پر چھ ہفتے کی جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی جزوی رہائی شامل ہے، ایک مصری اہلکار کے مطابق تجویزات میں غزہ سے اسرائیلی انخلاء بھی شامل ہے۔
- ایسے معاہدے پر کسی بھی صورت میں راضی نہیں جس میں واضح طور پر جنگ کا خاتمہ شامل نہ ہو: حماس
حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ حماس غزہ میں جنگ بندی کے ایسے معاہدے پر کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہوگی جس میں واضح طور پر جنگ کا خاتمہ شامل نہیں ہوگا۔ سینئر عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حماس نے درخواست کی ہے کہ معاہدے میں ایک واضح اور صریح متن شامل کیا جائے جس میں لکھا ہو کہ یہ مکمل اور مستقل جنگ بندی کا معاہدہ ہے ۔ دوسری طرف اسرائیل نے اب تک اس نکتے کو مسترد کیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ اس وقت تک اپنا وفد قاہرہ نہیں بھیجے گا جب تک حماس کا ردعمل نہیں آجاتا۔ اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا ہے کہ ہمیں ابھی تک حماس کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ہے اور اس جواب کے ملنے پر جنگی کونسل میں اس پر بات کی جائے گی۔
ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ حماس کے جواب میں یرغمالیوں کے معاہدے کے فریم ورک کے حوالے سے مثبت پیش رفت دیکھی گئی تو اسرائیل غزہ جنگ بندی پر بات چیت مکمل کرنے کے لیے ایک وفد قاہرہ بھیجے گا۔ عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم جو چیز دیکھ رہے ہیں وہ یرغمالیوں کے معاہدے کے فریم ورک میں ایک ممکنہ معاہدہ ہے۔ توقع یہ ہے کہ کسی حقیقی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات مشکل اور طویل ہوں گے۔ اہلکار نے مزید کہا کہ اگر ہم موساد کے سربراہ کی قیادت میں ایک وفد قاہرہ بھیجتے ہیں تو یہ فریم ورک کے حوالے سے ایک مثبت پیش رفت کا اشارہ ہو گا.
- اسرائیل میں نتن یاہو پر جنگ بندی کا دباؤ:
یرغمالیوں کے کچھ خاندانوں نے نتن یاہو پر اپنے سیاسی مفادات کے لیے جنگ کو طول دینے کا الزام لگایا ہے۔ ڈینیئل ایلگرٹ نامی شخص کا بھائی اِتزاک حماس کے پاس ہے۔ اس نے تل ابیب میں ایک ریلی میں نتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ، ’’بی بی، ہم یہاں سے آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بدلے جنگ کے خاتمے کا اعلان کریں۔ مؤثر طریقے سے ختم، ہم جانتے ہیں کہ یہ ختم ہو چکا ہے، آپ ہمیں بیوقوف نہیں بنا سکتے۔"
7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 34,654 فلسطینی ہلاک اور 77,908 زخمی ہو چکے ہیں۔ اس جنگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے اور علاقے کو ایک انسانی بحران کی جانب دھکیل دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: