واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ کے روز اسرائیل کی طرف سے حماس کے لیے تجویز کردہ تین مرحلوں پر مشتمل معاہدے کی تفصیل بتائی۔ بائیڈن کے مطابق یہ جنگ بندی معاہدہ غزہ میں بقیہ یرغمالیوں کی رہائی کا باعث بنے گا اور تقریباً 8 ماہ سے جاری مشرق وسطیٰ کی جنگ کو ختم کر دے گا۔
بائیڈن نے مزید کہا کہ اب حماس، اسرائیل پر بڑے پیمانے کا حملہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا ہے۔ بائیڈن نے اسرائیلیوں اور حماس پر زور دیا کہ وہ ایک توسیع شدہ جنگ بندی کے لیے باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدے پر آئیں۔
ڈیموکریٹک صدر نے وائٹ ہاؤس کے ریمارکس میں اس تجویز کو ایک پائیدار جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کا روڈ میپ قرار دیا۔
بائیڈن نے کہا کہ مجوزہ معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں تک جاری رہے گا اور اس میں " مکمل جنگ بندی" ہوگی، غزہ کے تمام گنجان آباد علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور متعدد یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے خواتین، بوڑھے اور زخمی سمیت سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔
اس مرحلے پر امریکی یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا، اور مارے گئے یرغمالیوں کی باقیات ان کے اہل خانہ کو واپس کر دی جائیں گی۔ پہلے مرحلے کے دوران انسانی امداد میں اضافہ ہو گا، ہر روز 600 ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دی جائے گی۔
دوسرے مرحلے میں مرد فوجیوں سمیت باقی تمام زندہ یرغمالیوں کی رہائی شامل ہوگی اور اسرائیلی افواج غزہ سے انخلاء کریں گی۔
بائیڈن نے کہا، "اور جب تک حماس اپنے وعدوں پر قائم رہے گی، عارضی جنگ بندی، اسرائیلی تجویز کے الفاظ میں، 'مستقل طور پر دشمنی کا خاتمہ،' بن جائے گی۔
تیسرے مرحلے میں غزہ کی ایک بڑی تعمیر نو کے آغاز کا مطالبہ کیا گیا ہے، جسے جنگ کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے کئی دہائیوں کی تعمیر نو کا سامنا ہے۔ ساڑھے چار صفحات پر مشتمل اسرائیلی تجویز جمعرات کو حماس کو بھیجی گئی ہے۔
دریں اثنا، کانگریس کے رہنماؤں نے جمعہ کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کو یو ایس کیپیٹل میں خطاب کرنے کی دعوت دی ہے۔ حالانکہ خطاب کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔
بائیڈن نے اعتراف کیا کہ اسرائیلی تجویز کو ٹریک پر رکھنا مشکل ہو گا، کیونکہ پہلے مرحلے سے دوسرے مرحلے تک جانے کے لیے "گفت و شنید کے لیے بہت سی تفصیلات" موجود ہیں۔
بائیڈن کا یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آیا جب اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ اس کی افواج اب رفح کے وسطی علاقوں میں جنوبی غزہ کے شہر میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ بائیڈن نے اسے "واقعی ایک فیصلہ کن لمحہ" قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی چاہتی ہے اور یہ کہ اسرائیل کے ساتھ مرحلہ وار معاہدہ یہ ثابت کرنے کا ایک موقع ہے کہ، کیا واقعی حماس ایسا چاہتی ہے۔
بائیڈن کی تقریر کے بعد نتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے اسرائیل کی یرغمالیوں کی مذاکراتی ٹیم کو باقی یرغمالیوں کی رہائی کا راستہ تلاش کرنے کا اختیار دیا ہے۔
لیکن اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ "جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ اس کے تمام اہداف حاصل نہ ہو جائیں، بشمول یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کا خاتمہ۔ " وزیر اعظم نتن یاہو کے دفتر نے اسرائیل کی طرف سے تجویز کردہ "درست خاکہ" پر عمل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے بائیڈن کی پیش کردہ تجویز کو مثبت انداز میں دیکھا ہے اور اسرائیلیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک معاہدے کے لیے واضح عزم کا اعلان کریں جس میں ایک مستقل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا، قیدیوں کا تبادلہ اور دیگر شرائط شامل ہیں۔
اسرائیل کو غزہ میں منظم تباہی کی اپنی حکمت عملی کے لیے بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے، جس میں شہریوں کو زندگیوں کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ محصور علاقے میں اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں میں 36,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
بائیڈن نے اسرائیل میں ان لوگوں سے بھی خطاب کیا جو جنگ کے خاتمے کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ نتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحاد کے کچھ ارکان نے کسی بھی طرح کے معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے حماس کو ختم کرنے اور غزہ پر مستقل قبضے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پر بائیڈن نے کہا کہ، "وہ (انتہائی دائیں بازو کے اتحاد کے کچھ ارکان) برسوں تک لڑتے رہنا چاہتے ہیں، اور یرغمالی ان کے لیے ترجیح نہیں ہیں۔" "میں نے اسرائیل کی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاہدے کے پیچھے کھڑے ہوں۔"
بائیڈن نے اپنے ریمارکس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی ذکر نہیں کیا، جسے وہ بارہا خطے میں طویل مدتی امن کے حصول کی کلید قرار دے چکے ہیں۔ امریکی انتظامیہ خطے کی دو بڑی طاقتوں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔ لیکن سعودی عرب ایسے کسی بھی معاہدے کی مخالف کر رہا ہے جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات شامل نہ ہوں۔