حیدرآباد (نیوز ڈیسک): بڑھتی ہوئی آبادی کو ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایک بڑے مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کی بہت سی اسکیمیں حکومتوں کی جانب سے چلائی جارہی ہیں۔ اس پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ حکومت کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی بے روزگاری سمیت کئی مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ مگر وہیں یورپی یونین کے تحت ایک ملک ہنگری ہے جہاں کی حکومت آبادی میں اضافے کے لیے فی بچہ لاکھوں روپے کی مراعات دیتی ہے۔ وہاں کی سرکاری پالیسی کہتی ہے کہ بچے پیدا کرتے رہیں اور مفت گھر، گاڑی اور دیگر سہولیات قسطوں میں حاصل کریں۔
ڈی ڈبلیو ہندی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہنگری کی حکومت کی جانب سے ملک میں محنت کشوں کی تعداد کو پورا کرنے کے لیے ایک طویل المدتی پالیسی کے تحت آبادی میں اضافہ کیا جا رہا ہے، تاکہ ملک میں تارکین وطن کی تعداد کو کم کیا جا سکے اور ہجرت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر لگام لگ سکے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے پہلے بچے کی پیدائش پر 23 لاکھ روپے سے زائد کا بلاسودی قرض دیا جاتا ہے۔ دوسرے بچے کی پیدائش پر 30% تک قرض معاف کر دیا جاتا ہے تاکہ آپ نئی گاڑی خرید سکیں۔ یہی نہیں تیسرے بچے پر گھر خریدنے کے لیے دوبارہ 23 لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔ چوتھے بچے کی موت پر ماں کے لیے لائف ٹائم انکم ٹیکس فری کر دیا جاتا ہے۔
شرح پیدائش میں حالیہ کمی
ہنگری کا منصوبہ کئی دہائیوں پرانا ہے۔ اس منصوبے کے نفاذ کے بعد ہنگری کی شرح پیدائش میں اچھا اضافہ دیکھا گیا۔ لیکن ایک بار پھر کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہنگری اس بات کی ایک مثال ہے کہ لوگوں کو صرف پیسے دے کر بچے پیدا کرنے کی ترغیب نہیں دی جا سکتی۔ آبادی میں اضافے کے لیے حکومت نے صرف معاشی فوائد پر توجہ دی جب کہ بچوں کی پرورش اور دیگر حالات کو مدنظر نہیں رکھا۔
امریکہ میں بھی آبادی بڑھانے پر زور
ریپبلکن پارٹی کی طرف سے نائب صدارتی امیدوار جے ڈی وینس امریکہ میں بھی آبادی بڑھانے کے لیے ہنگری کی پالیسی کو لاگو کرنے کے حق میں ہیں۔ وہ اس پالیسی کو امریکہ میں تارکین وطن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک بہتر آپشن سمجھتے ہیں۔
یورپی ملک فرانس میں شرح پیدائش بہتر ہے۔ والدین بچوں کو ایک سال کے اندر ڈے کیئر سنٹر بھیج سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ والدین پر زیادہ دباؤ نہیں پڑتا ہے۔ مائیں اپنے بچوں کی پیدائش کے فوراً بعد کام پر واپس آ سکتی ہیں۔ اس سے ان کے کریئر پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔ فرانس طویل عرصے سے کئی سطحوں پر اس پر کام کر رہا ہے۔
کئی ترقی یافتہ یا صنعتی ممالک میں کم آبادی کا سنگین اثر کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کم آبادی کا مطلب کم پیداوار ہے اور کم پیداوار سے ترقی کی رفتار سست ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔