یروشلم:نبیلہ کا خیال تھا کہ غزہ شہر میں اقوام متحدہ کا اسکول ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج وہاں پہنچ گئی۔ ان کے مطابق صیہونی فوجیوں نے اس جگہ پر دھاوا بول دیا۔ فوج نے مردوں کو کپڑے اتارنے کا حکم دیا اور خواتین کو ایک مسجد میں لے جا کر تلاشی لی۔ نبیلہ کے مطابق اس طرح اسرائیلی حراست میں چھ ہفتوں کا سفر شروع ہوا۔ اس کے بقول اس دوران خواتین کے ساتھ بار بار مار پیٹ اور پوچھ تاچھ کی گئی۔
غزہ شہر سے تعلق رکھنے والی 39 سالہ نبیلہ نے دوبارہ گرفتاری کے ڈر سے اپنا آخری نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ "فوجی بہت سخت تھے، انہوں نے ہمیں مارا پیٹا اور عبرانی میں غصہ کیا۔ فلسطینی خاتون کے مطابق اگر خواتین اپنا سر اٹھاتیں یا کوئی لفظ بولتیں تو وہ انھیں سر پر مارتے تھے۔"
اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران غزہ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں حراست میں لیے گئے فلسطینیوں پر بڑے پیمانے پر جسمانی استحصال اور نظر انداز کیے جانے کا الزام ہے۔ حالانکہ ابھی تک یہ معلوم نہیں کیا جا سکا ہے کہ کتنی خواتین یا نابالغوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
نبیلہ نے کہا کہ شمال میں ڈیمن جیل پہنچنے سے پہلے اسے اسرائیل کے اندر نا معلوم مقام پر بند کر دیا گیا تھا، جہاں اس کے اندازے کے مطابق کم از کم 100 خواتین پہلے سے قید تھیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کے فلسطینیوں کو "غائب" کر رہا ہے۔ انہیں بغیر کسی الزام یا مقدمے کے حراست میں لے رہا ہے اور ان کے اہل خانہ یا وکلاء کو یہ ظاہر نہیں کر رہا ہے کہ وہ کہاں ہیں۔
7 اکتوبر کو حماس کے زیر قیادت عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سے اسرائیلی فوج مشتبہ عسکریت پسندوں کی تلاش اور انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے لیے سینکڑوں فلسطینیوں کو گرفتار کر چکے ہیں۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج کے زریعہ فلسطینیوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انھیں گھٹنوں کے بل بٹھانے ہویے، سر جھکائے اور ہاتھ باندھے ہوئے مردوں کی تصاویر نے دنیا بھر میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ شمالی غزہ اور جنوبی شہر خان یونس میں، فوجیوں نے طبی عملے سمیت اقوام متحدہ کے اسکولوں اور اسپتالوں سے ایک وقت میں درجنوں افراد کو پکڑ لیا تھا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ دھماکہ خیز مواد کی تلاش کے لیے قیدیوں کے کپڑے اتار دیتی ہے۔
نبیلہ کو اسرائیلی فوج نے 47 دن قید میں رکھا۔ اسرائیلیوں کے انخلاء کے احکامات کے باوجود، نبیلہ اور اس کے خاندان نے غزہ شہر کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ غزہ میں کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ، "میں خوفزدہ تھی، یہ تصور کر رہی تھی کہ وہ ہمیں پھانسی دے کر وہیں دفن کرنا چاہتے ہیں۔"
فورسز نے نبیلہ کو اس کی 13 سالہ بیٹی اور 4 سالہ بیٹے سے الگ کر دیا تھا اور اسے جنوبی اسرائیل میں ایک سہولت کے لیے جانے والے ٹرک پر لاد دیا۔ اسرائیلی گروپ فزیشن فار ہیومن رائٹس-اسرائیل، یا پی ایچ آر آئی کے مطابق، غزہ میں تمام قیدیوں کو پہلے تیمن فوجی اڈے پر لایا جاتا ہے۔