اردو

urdu

ETV Bharat / international

اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوئے فلسطینی قیدیوں کی دلخراش داستان - BBOUT RELEASED PALESTINIANS

سنیچر کو اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوئے اہم فلسطینی قیدیوں کے حالات و واقعات پر ایک نظر۔ ۔ ۔

رام اللہ میں رہا ہوئے فلسطینی قیدیوں کا شاندار استقبال
رام اللہ میں رہا ہوئے فلسطینی قیدیوں کا شاندار استقبال (Photo: AP)

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 26, 2025, 11:41 AM IST

رام اللہ: سنیچر کو حماس کی قید سے چار فوجیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل نے 200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا، جن میں سے 120 عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کی عمریں 16 سے 67 کے درمیان تھیں۔ آزاد ہونے والے ان فلسطینی قیدیوں میں سے زیادہ تر کو ایک مغربی کنارے میں ایک پرجوش ماحول میں رہا کیا گیا، جب کہ 70 ایسے قیدیوں کو مصر بھیج دیا گیا جنہیں اسرائیلی اپنی سلامتی کے لیے خطرہ مانتا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے استقبال کے مناظر نے اسرائیلیوں کے لیے صدمہ بڑھا دیا۔

سنیچر کے روز مغربی کنارے کے رام اللہ شہر میں رہا ہونے والے درجنوں فلسطینی قیدیوں کا ایک پرجوش ہجوم نے 'ہیروز' کی طرح استقبال کیا۔ اس دوران اہل خانہ سے برسوں بعد ملنے کے جذباتی مناظر بھی دیکھے گئے۔ ایک فلسطینی ماں اپنے بیٹے سے برسوں میں پہلی بار گلے لگی تو دونوں خوب روئے۔ رہائی پانے والے کچھ نوعمر فلسطینیوں نے اسرائیلی جیلوں میں اپنے اذیت ناک تجربات کو شیئر کیا۔ ان قیدیوں نے اسرائیلی جیلوں سخت حالات، مسلسل مار پیٹ اور تذلیل کے بارے میں بتایا۔

رہا ہونے والے فسلطینیوں کی گاؑڑی کو گھیرے ہوئے ہجوم (Photo: AP)

اسرائیلی جیل سے رہا ہونے عظمی نافع نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ "یہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی ماں اور باپ کے درمیان ہونا ایک ناقابل بیان احساس ہے۔" عظمی نافع پر 2015 میں ایک چوکی پر گاڑی سے اسرائیلی فوجیوں کو کچلنے الزام تھا اور انہیں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ حالانکہ غزہ معاہدے کے تحت انہیں نو سال کے بعد رہائی مل گئی۔ عظمی کی والدہ ہادیہ ہمدان بیٹے کی رہائی پر بہت خوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے دہی کی چٹنی میں گوشت کے پکوڑے پکائیں گی۔

وہیں فلسطین سے باہر بھیجے گئے 70 قیدیوں کے استقبال کے لیے مغربی کنارے جیسی بھیڑ نہیں تھی۔ ان قیدیوں کا قافلہ جنوب کی طرف روانہ ہوا اور خاموشی سے غزہ کے رفح بارڈر کراسنگ سے مصر میں داخل ہوا۔

فلسطینی اتھارٹی کے مرکز رام اللہ میں قیدیوں کی وطن واپسی اور پرجوش استقبال سے حماس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بہت سے نوجوان فلسطینیوں نے حماس کے سبز جھنڈے لہرائے اور عسکریت پسند گروپ سے تمام قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے مزید اسرائیلیوں کو پکڑنے کا مطالبہ کیا۔

سنیچر کو رہا کیے گئے اہم فلسطینی قیدیوں پر ایک نظر

محمد العرادہ (42 سال)

فلسطینی اسلامی جہاد کے رکن العرادہ کو 2000 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل کے قبضے کے خلاف دوسرے انتفاضہ (بغاوت) کے دوران کئی الزامات کے لیے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اسرائیلی جیل اتھارٹی کے مطابق ان پر دھماکہ خیز مواد نصب کرنے اور قتل کی کوشش کا الزام تھا۔

رہائی پانے والا ایک فلسطینی قیدی فلسطین و حماس کا جھنڈا لہراتے ہوئے (Photo: AP)

ان پر 2021 میں جیل سے ایک غیر معمولی فرار کی منصوبہ بندی کا بھی الزام ہے، جب العرادہ اور پانچ دیگر قیدیوں نے اسرائیل کی سب سے محفوظ جیلوں میں سے ایک میں سرنگ بنانے کے لیے چمچوں کا استعمال کیا۔ پکڑے جانے سے پہلے وہ کئی دن تک مفرور رہے۔

العرادہ شمالی مقبوضہ مغربی کنارے کے جینین میں ایک غریب اور سیاسی طور پر سرگرم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی جیل میں کئی سال گزارے۔

ہفتے کے روز رام اللہ میں ان کا ایک طرح کے سپر ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔ ان کا خیرمقدم کرنے کے لیے خاندان، دوستوں اور مداحوں ایک بڑی بھیڑ جمع تھی۔ اس دوران کچھ لوگ ان کے جیل بریک واقعے کے حوالے سے"آزادی سرنگ" کے نعرے لگا رہے تھے۔ ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں، تو وہ لاجواب تھے۔ وہ بار بار صرف اتنا کہتے رہے کہ ’’اللہ کا شکر ہے، اللہ کا شکر ہے۔‘‘

محمد عودة (52)، ووائل قاسم (54) وسام عباسی (48)

محمد عودة، وائل قاسم اور وسام عباسی تینوں کو اسرائیل نے رہا کر کے مصر منتقل کر دیا جب کہ ان کے تمام خاندان مشرقی یروشلم کے سلوان علاقے میں رہتے ہیں۔ یہ تینوں حماس کے رکن تھے۔ دوسرے انتفاضہ کے دوران یہ سبھی اسرائیل پر کئی بڑے حملوں میں ملوث کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے گئے۔ ان افراد کو 2002 میں اسرائیلی جیل میں متعدد بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

رہائی پانے والا قیدی فلسطین کا جھنڈا لہراتے ہوئے (Photo: AP)

ان پر 2002 میں تل ابیب کے قریب ایک پرہجوم پول ہال (pool hall) میں خودکش بم حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام تھا جس میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی سال کے آخر میں، انہوں نے عبرانی یونیورسٹی میں ایک بم دھماکے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں پانچ امریکی طلباء سمیت نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل نے عودة کو، اس حملے میں کلیدی ملزم قرار دیا تھا۔ عودہ اس وقت یونیورسٹی میں پینٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔

تین أبو حامد بھائی

رام اللہ میں العماری مہاجر کیمپ کے ممتاز ابو حامد خاندان کے تین بھائیوں ناصر (51)، محمد (44) اور شریف (48) کو ہفتے کے روز ایک ساتھ ملک بدر کر دیا گیا۔ انہیں 2002 میں اسرائیلیوں کے خلاف مہلک حملوں کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ان کے ایک دوسرے بھائی ناصر ابو حامد الاقصیٰ شہید بریگیڈ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ الاقصیٰ بریگیڈ ایک مسلح تنظیم ہے جو فلسطینی اتھارٹی کو کنٹرول کرنے والی سیکولر سیاسی جماعت الفتح سے وابستہ ہے۔

رہائی پانے والا فلسطینی لوگوں کے استقبال کا جواب دیتے ہوئے (Photo: AP)

ناصر ابو حامد کو کئی مہلک حملوں میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 2022 میں پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے جیل میں ان کی موت ہو گئی تھی جس کے بعد مغربی کنارے میں غم و غصے لہر دوڑ گئی تھی جب فلسطینی حکام نے اسرائیل پر طبی غفلت کا الزام لگایا۔

اس خاندان کی فلسطینی مزاحمت کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ ان کی والدہ لطیفہ ابو حامد (72) کے اب تین بیٹے جلاوطن ہیں۔ ایک بیٹا ابھی تک قید ہے، ایک کا جیل میں انتقال ہو گیا جب کہ ایک تیسرے بیٹے کو اسرائیلی فوج نے ہلاک کر دیا تھا۔ اسرائیل کی طرف سے ان کے خاندانی گھر کو کم از کم تین بار مسمار کیا جا چکا ہے۔

اسرائیلی جیل سے رہا ہونے والے دو فلسطینی قیدی (Photo: AP)

محمد الطوس (67)

فلسطینی حکام نے بتایا کہ الطوس سنیچر کو اپنی رہائی تک اسرائیلی جیل میں سب سے زیادہ طویل وقت تک مسلسل بند رہنے والے قیدی تھے۔ وہ الفتح پارٹی کے کارکن تھے اور انہیں پہلی مرتبہ 1985 میں اردن کی سرحد پر اسرائیلی افواج سے لڑتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کل 39 سال اسرائیلی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ ان کا تعلق مغربی کنارے کے بیت لحم شہر سے ہے لیکن انہیں رہا کرنے کے بعد مصر منتقل کر دیا گیا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details