ڈھاکہ: شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے کے بعد بھارت میں پناہ گزیں ہیں اور وہیں بنگلا دیش میں مظاہرین ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں سڑکوں پر گھومتے رہے۔ شمالی بنگلہ دیش کے ضلع شیرپور میں لاٹھیوں سے مسلح ایک ہجوم نے ڈسٹرکٹ جیل میں گھس کر 500 سے زائد قیدیوں کو رہا کر دیا۔ بنگلہ دیش کی فوج نے ملک میں عارضی طور پر اقتدار سنبھال لیا ہے اور لوگوں سے تشدد بند کرنے کی اپیل کی ہے۔
غور طلب ہے کہ جلد ہی عبوری حکومت کی تشکیل متوقع ہے۔ ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق، جیسور میں نامعلوم افراد کی جانب سے ایک رہائشی ہوٹل کو آگ لگانے کے بعد کم از کم آٹھ افراد جھلس کر ہلاک اور 84 دیگر زخمی ہو گئے۔ جبکہ کھلنا کے کوئرہ ضلع پریشد کے چیئرمین اور ضلع عوامی لیگ کے صدر جی ایم محسن رضا سمیت تین لوگوں کو ہجوم نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ وہیں نوگاؤں میں مظاہرین کے ایک گروپ نے وزیر خوراک سدھن چندر مجمدار کی رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ کی اور حالیہ رکن پالیمنٹ بنے کرکٹر مشرف بن مرتضیٰ کے گھر کو بھی آگ لگا دیا۔
مقامی میڈیا رپورٹس اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز کے مطابق، پیر کے روز مظاہرین پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہو گئے، جہاں انہیں چیزیں اٹھاتے ہوئے دیکھا گیا۔ کچھ کو پارلیمنٹ ہال کی کرسیوں پر بیٹھ کر سگریٹ نوشی کرتے بھی دیکھا گیا۔ ڈھاکہ ٹریبیون کی خبر کے مطابق، ایک اور گروہ گنابھابن میں داخل ہوا، جنہیں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر لوٹ مار، زندہ جانوروں اور فرنیچر کے ساتھ تصویریں لیتے دیکھا گیا۔ مظاہرین نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں بھی توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے کی بھی توڑ پھوڑ کی اور ان کے نام پر بنائے گئے عجائب گھر کو آگ لگا دی۔
انہوں نے حکمران جماعت عوامی لیگ کے دفتر پر بھی دھاوا بول دیا۔ تاہم ڈھاکہ ٹریبیون کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈھاکہ میں طالب علموں نے لوٹی ہوئی اشیاء کو مظاہرین سے ضبط کر لیا۔ جن میں ایئر کنڈیشنر، ریفریجریٹر، کرسیاں، میزیں اور کمپیوٹر شامل ہیں۔
ڈھاکہ ٹریبیون کی خبر کے مطابق، انسداد امتیازی طلبہ تحریک کے رہنماؤں نے بنگلہ دیش کے جاری چیلنج سے نمٹنے کے لیے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں ایک عبوری حکومت کی تجویز پیش کی ہے۔ جہاں صدر محمد شہاب الدین نے پیر کی رات ملک چلانے کے لیے عبوری حکومت بنانے کی منظوری دے دی۔