ایسا کہا جاتا ہے کہ ذیابیطس ایسی لاعلاج بیماری ہے، جو ایک بار لگ جائے تو زندگی بھر ختم نہیں ہوتی، لیکن اب ایک بے مثال کامیابی حاصل کرتے ہوئے چینی سائنسدانوں نے ذیابیطس کے علاج کے لیے نیا علاج ایجاد کر لیا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی لاکھوں لوگوں کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہے۔ تیانجن فرسٹ سنٹرل اسپتال اور پیکنگ یونیورسٹی کے محققین نے اس پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج معروف جریدے سیل میں شائع ہوئے۔ سائنسدانوں نے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے ٹائپ 1 ذیابیطس کے علاج کے لیے اس نئے علاج کا اعلان کیا۔ یہ دنیا میں پہلا موقع ہے کہ اس طرح کے طریقہ کار سے کسی مریض کو انسولین کی ضرورت کے بغیر قدرتی طور پر خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔
اب تک آئیلیٹ سیل ٹرانسپلانٹیشن ہی ٹائپ 1 ذیابیطس کے علاج کے لیے ایک امید افزا طریقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لبلبہ کے جزیرہ خلیے، جو انسولین اور گلوکاگن جیسے اہم ہارمونز پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں، خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس عمل میں مرنے والے عطیہ دہندگان سے آئیلیٹ سیلز کو اکٹھا کرنا اور ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں کے جگر میں ٹرانسپلانٹ کرنا شامل تھا۔ تاہم، عطیہ دہندگان سے خلیات کی محدود دستیابی کی وجہ سے، علاج کبھی بھی وسیع پیمانے پر استعمال میں نہیں رہا۔
ایم سیل ٹرانسپلانٹ سے امید روشن ہو گئی: