سرینگر: دور جدید میں جہاں میڈیکل سائنس میں انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔وہیں اس انقلابی پیش رفت کے بیچ ایسا رجحان بھی دیکھنے کو مل رہا ہے، جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے وہ ہے آپریش کے ذریعے ہونی والی زچگی۔
گزشتہ کئی برس کے دوران ملک بھر کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی قدرتی طریقے سے زچگی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، جبکہ آپریشن کے ذریعے ہونی والی زچگی میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ آج کل ولادت کے جتنے بھی کیسز ہورہے ہیں وہ زیادہ تر آپریشن سے ہی عمل میں لائے جارہے ہیں۔اگرچہ یہ بڑھتا رجحان سرکاری اہسپتالوں میں کچھ حد تک کم نظر آرہا ہے، لیکن اکثر نجی نرسنگ ہومز میں بنا آپریش کے زچگی ممکن ہی نہیں ہوپاتی ہے۔
وادی کشمیر میں ہر سال 70 فیصد بچوں کی پیدائش جراحی سے کی جاتی ہیں،جن میں نجی اہسپتالوں میں زچگی کی یہ شرح 100 فیصد ہے جبکہ سرکاری اہسپتالوں میں یہ شرح 50 فیصد ہے۔ سال 2023 میں وادی کشمیر کے سب سے بڑے امراض خواتین کے اہسپتال لل دید میں 22 ہزار 697 خواتین نے بچوں کو جنم دیا،جن میں 15 ہزار 951 کو سرجری کے عمل میں لائی گئی جبکہ 6 ہزار 746 خواتین نے قدرتی طریقے سے بچوں کو جنم دیا۔اس طرح اہسپتال میں جراحی کے ذریعے بچوں کو جنم دینے والی خواتین کی شرح 70 فیصد رہی۔